ایک بار پھر آبے کا داؤ سیدھا پڑا
جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے اپنے ہمت افزا فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں اور وسط مدتی چناؤ کرانے کا ان کا ہمت افزاء فیصلہ کتنا صحیح تھا یہ چناوی نتیجوں سے پتہ چل رہا ہے جس میں ان کی رہنمائی والے اتحاد کو دوتہائی اکثریت ملی ہے۔ ایتوار کو ہوئے وسط مدتی چناؤ کے نتیجے بتاتے ہیں کہ آبے کا داؤ فٹ بیٹھا۔ اسی کے ساتھ شنزو آبے کے سب سے زیادہ وقت تک وزیر اعظم بننے رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ جاپان کے عام چناؤ نتیجے اندازے کے مطابق بیشک آئے ہوں لیکن ان نتائج کو صرف آبے کی مقبولیت اور ان کی پارٹی کے اثر کا ثبوت ماننا صحیح نہیں ہوگا۔ شنزو کی آسان اور دھماکیدار جیت کے پیچھے سب سے بڑی بات یہ رہی کہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی چیلنج نہ ہونا۔ اپوزیشن کے نام پر دونوں ہی پارٹیاں تھیں جو بڑی پارٹی یعنی ڈیموکریٹ پارٹی کی تقسیم سے حال ہی میں وجود میں آئی۔ ان دونوں میں حکمراں پارٹی کو زبردست چنوتی نہ دے پانے کی خود اعتمادی نہیں تھی نہ تیاریاں تھیں ،بلکہ دونوں میں دوڑ لگی تھی کس کو زیادہ سیٹیں ملیں۔ جیت کو لیکر کوئی بے یقینی نہ ہونے کے باوجود اس چناؤپر کافی دلچسپی سے نظر رکھی جارہی تھی۔ نارتھ کوریا کے میزائل تجربوں سے پیدا خطروں کے درمیان ہوئے اس چناؤ کے نتیجوں کی صرف جاپان کے لئے ہی اہمیت نہیں ہے بلکہ اس سے ایشیائی پرشانت خطے میں نئی حکمت عملی بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ شنزو آبے نے اس سے پہلے2014 میں بھی نچلے ایوان کی میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی چناؤ کرایا تھا اور اس میں بھی انہیں کامیابی ملی تھی۔ لیکن اس مرتبہ حالات بالکل الگ تھے۔ نارتھ کوریا نے پچھلے مہینے دو مزائلیں داغی تھیں، جو کہ جاپانی جزیرے ہوکائیدو کے اوپر سے ہوکر سمندر میں جا گری تھیں، یہ ہی نہیں نارتھ کوریا نے جاپان کو سمندر میں ڈوبا دینے تک کہ دھمکی دے رکھی ہے۔ دراصل جاپان امریکہ کا ساتھی اتحادی ہے اس ناطے نارتھ کوریا کے ڈکٹیٹر اور سر پرا کم جونگ اپنا دشمن مانتا ہے۔ جاپان اور نارتھ کوریا کے درمیان نہ تو اقتصادی رشتے ہیں اور نہ ہی ڈپلومیٹک ۔ یوں تو جاپان کی فوج دنیا کی جدیدترین فوجی وسائل سے آراستہ افواج میں مانی جاتی ہے لیکن وہاں کا قانون یہ سرکاری حق نہیں دیتا کہ جاپانی فوج باہر جاکر لڑے۔ آبے اور ایل ڈی پی کا ماننا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اٹھائے گئے نقصان کے بعد کیا گیا یہ قانون زیادہ مضبوط نہیں رہ گیا ہے اس لئے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن کیا آبے اب یہ کر پائیں گے؟ آئینی ترامیم کے لئے دونوں ایوان میں دو تہائی اکثریت کی شرط پوری کرنی ہوگی لیکن کیا وہ اپوزیشن کو اس کے لئے تیار کرپائیں گے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں