گجرات میں بھاجپا اپنے ترکش سے سارے تیر آزمانے پر مجبور

وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح سے بار بار گجرات میں طوفانی دورہ کئے ہیں اور تابڑتوڑ پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ہے اس سے صاف لگ رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات اسمبلی چناؤ کے نتائج کو لیکر فکر مند ضرور ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھاجپا اپنا گڑبچانے کے لئے اپنے ترکش سے سارے تیر چلانے پر مجبور ہے۔ گجرات اسمبلی چناؤ کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔قاعدے سے تو گجرات چناؤ کی تاریخیں ہماچل پردیش چناؤ کے ساتھ ہی اعلان کی جانی چاہئے تھیں لیکن ایسا الزام لگایا جارہا تھا کہ چناؤ کمیشن پر دباؤ بنا کر حکومت نے گجرات اسمبلی چناؤ کی تاریخیں ٹلوائیں کیونکہ کورٹ آف کنڈیکٹ نافذ ہوجانے کے بعد پروجیکٹوں کے افتتاح وغیرہ پر روک لگ جاتی ہے۔ گجرات میں پچھلے 20 برسوں سے بھاجپا اقتدار میں ہے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کو مل رہے رسپانس اور پارٹی دار ، دلتوں و او بی سی اور مسلم ملا کر اس بار وہاں تبدیلی کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ فطری ہی ہے کہ اس سے بھاجپا کی بے چینی بڑھی ہے ۔ بھاجپا ابھی تک ترقی کے نعرے کے ساتھ گجرات کے اقتدار پر قابض تھی لیکن جس طرح سے پارٹی دار ،دلت، مسلمان و دیگر پسماندہ فرقے کے لوگوں نے ناراضگی ظاہر کی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ 2017 کا اسمبلی چناؤ وکاس کے بجائے ذات پات کے تجزیوں پر زیادہ منحصر کرے گا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی بھی بڑے اشو ہیں۔ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سب سے زیادہ مخالفت کی آوازیں سورت کے تاجروں کی طرف سے اٹھ رہی ہیں اس لئے بھاجپا کا مینڈیٹ مانے جانے والے کاروباری طبقے میں بھی سیند لگنے کا اندیشہ ہے۔ جس طرح سے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کو گجرات میں کافی سپورٹ مل رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ گجرات میں پچھڑی ہوئی کانگریس میں پھر سے جان پڑ رہی ہے۔ راہل نے لگتا ہے کہ اپنے طریقے اور تقریر کا مضمون دونوں کو بدلا ہے۔ ان کا یہ جملہ کے جی ایس ٹی کا مطلب ’’گبر سنگھ ٹیکس ‘‘ جنتا کو بہت پسند آرہا ہے۔ جس راہل گاندھی کو سب سے کمزور نیتا مانا جارہا تھا ان کی ریلیوں اور تقریروں میں لوگ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ بھاجپا گجرات ماڈل کو دنیا بھر میں پروپگیٹ کردی رہی ہے لیکن اپوزیشن جس طرح سے گجرات ماڈل کو درکنار کرنے میں لگی ہوئی ہے اس سے بھاجپا کے لئے چنوتی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ دوسرے کچھ نئے چہروں کے سامنے آنے سے چناؤ کے تجزیئے اور دلچسپ ہونے والے ہیں جہاں پارٹی داروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہوگی وہیں دلت آبادی میں بھی سیند لگانے کی کوشش ہونا فطری ہی ہے۔ اصل میں پارٹی داروں کے علاوہ گجرات میں دلت آبادی کی بھی تعداد 7 فیصدی کے آس پاس ہے جو چناؤ کے دوران ہر پارٹی کے لئے اہمیت رکھے گی۔ اس کے علاوہ گجرات میں جس طرح ریزرویشن ، شراب بندی، بے روزگاری اور دلت ٹارچر کا معاملہ زور پکڑ رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ گجرات میں ابھی بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ادھر بنیادی سہولیات کو لیکر چناؤ ہوگا تو یقینی طور پر بی جے پی یہاں کٹہرے میں کھڑی نظر آئے گی کیونکہ ان سہولیات کے علاوہ گجرات ماڈل کو اشو نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اس درمیان پارٹی دار نیتا ہاردک پٹیل، دلت نیتا جگنیش میوادھی اور او بی سی نیتا الپیش ٹھاکورکے کانگریس سے جڑنے کی خبروں سے بھاجپا کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ الپیش ٹھاکور نے کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے ۔ گجرات میں اب تک کے چناؤ کا تجزیہ تو یہی بتاتا ہے جدھر پٹیل ،دلت اور پسماندہ طبقاتی برادری کا جھکاؤ ہوتا ہے چناؤ میں جیت اسی پارٹی کی ہوتی ہے لیکن دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات چناؤ کو اپنی شخصی ساکھ کا سوال بنا لیا ہے۔ وہ اتنی آسانی سے تو گجرات اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیں گے۔ وہ موجودہ ماحول کواپنے حق میں کرنے کے لئے کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ تو 18 دسمبر کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!