امریکہ آج اپنی ہی گولی کا شکار

دنیا میں اپنی دھاک جمانے کیلئے خودساختہ ٹھیکیدار بنے امریکہ نے جم کر ہتھیار بنائے۔ یہ ہتھیار انہوں نے کیرل اور غیر ملکی بازار میں خوب بیچے بھی۔ لچر قانون اور سامنت واد لوگوں کے چلتے امریکہ میں گن کلچر خوب پھلا پھولا۔ کبھی از خود حفاظت تو کبھی رسوخ دکھانے کے نام پر امریکیوں نے بندوقوں کا انبار کھڑا کردیا۔ اب یہ ہی گن کلچر اسے لہو لہان کررہا ہے۔ صرف2017 میں ہی اگست تک وہاں بڑے پیمانے پر بندوق سے حملے کے 244 واقعات ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر امریکی بندوق رکھنے کو اپنی شان مانتے ہیں وہ اسے طرز زندگی کا حصہ و طاقت مانتے ہیں۔ لاس ویگاس کے تازہ حملہ میں حملہ آور اسٹیفن پیڈروک کے ہوٹل کمرے میں 10 سے زیادہ رائفلیں ملی ہیں۔ اس تشدد کے بعد امریکہ میں گن کلچر پر پھرسے بحث چھڑ گئی ہے کیونکہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق امریکہ میں بندوقوں سے ہر سال اوسطاً 12 ہزار اموات ہورہی ہیں۔ پچھلے 50 برسوں میں امریکہ میں بندوقوں نے 15 لاکھ سے زیادہ جانیں لی ہیں۔ اس میں وسیع گولہ باری اور قتل سمیت پانچ لاکھ اموات ہوئی ہیں۔ دراصل امریکہ میں ہتھیار رکھنا بنیادی حقوق میں آتا ہے۔ بندوقیں آسانی سے لوگ اسٹور سے خرید لیتے ہیں لہٰذا لوگ گن پالیسی بنانے کی مانگ کررہے ہیں لیکن امریکہ میں خاص کر امریکی پارلیمنٹ میں گن لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون بننے نہیں دیتی جس سے بندوقوں کی فروخت پر لگام لگ سکے۔ مجھے یاد ہے جب براک اوبامہ صدر ہوا کرتے تھے تو دو سال پہلے ایک کالج میں 9 لوگوں کے قتل کے بعد وہ رو پڑے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر آج ہم نے قدم نہیں اٹھایا تو ایسے واقعات نہیں رکیں گے۔ جب بھی میں ان بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں ، پاگل ہوجاتا ہوں۔ ہم سب کو پارلیمنٹ میں گن پالیسی لانی چاہئے۔ لیکن امریکی کانگریس کے 70 فیصدی ایم پی ہتھیاروں کے حمایتی تھے لہٰذا اوبامہ بے بس رہے۔ امریکی گن صنعت سالانہ 91 ہزار کروڑ روپے کا ریوینیو کماتی ہے۔ لہٰذا امریکہ کی طاقتور ہتھیار لابی بھی ہتھیاروں پر کنٹرول کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ یہ لابنگ چناؤ میں سیاسی پارٹیوں کو موٹا پیسہ دیتی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہتھیار حمایتی رخ دکھاتے رہے ہیں۔گزرے سال اورلینڈو کے نائٹ کلب کے واقعہ کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ اگر کلب کے پاس ہتھیار ہوتے تو بہت سے لوگوں کی جان بچ سکتی تھی۔ دنیا بھر کی کل سویلین گن میں 48 فیصدی صرف امریکیوں کے پاس ہیں۔ امریکیوں کے پاس 31 کروڑ ہتھیار ہیں یعنی 89 فیصد امریکی لوگ اپنے پاس بندوق رکھتے ہیں۔ ان میں سے66 فیصدی لوگ ایک سے زیادہ بندوق رکھتے ہیں۔ امریکہ میں گن صنعت میں 2.65 لاکھ لوگ اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ امریکی معیشت میں ہتھیار کی فروخت سے 90 ہزار کروڑ روپے آتے ہیں لیکن سال میں 1 کروڑ سے زیادہ ریوالور، پستول جیسی بندوقیں یہاں بنتی ہیں۔ ہتھیاروں سے ہونے والے تشدد اور اموات سے 20 ہزار کروڑ روپے کا 2012 میں نقصان ہوا۔ یہ جی ڈی پی کا 1.4 فیصدی حصہ ہے۔ جان بوجھ کر بندوق سے کئے گئے قتل کی شرح امریکہ میں سب سے زیادہ اونچی آمدنی والے دیشوں کے مقابلے میں 25.2 گنا زیادہ ہے۔ یہاں ہر سال 10 لاکھ لوگوں میں غلطی سے گولی چلنے یا خودکشی کرکے مرنے والوں کی تعداد 66 ہے جبکہ جان بوجھ کر خود کو گولی مارنے والے لوگوں کی تعداد 36 ہے۔دوسرے نمبر پر فن لینڈ ہے جہاں یہ تعداد بسلسلہ 33 اور 3 ہے۔ گولی باری میں مارے جانے کے معاملے میں کسی برطانوی کے مقابلے میں امریکہ کا اندیشہ 50 گنا زیادہ ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنی ہی گولی کا شکار آج امریکہ خود ہی بن رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!