15-20 ہزار روپے میں زمین بیچنے پر مجبور کسان، امیر اربوں ڈکار جاتے ہیں

عام طور پر بینک سے قرضہ لینے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو آسان قسطوں پر سود کے ساتھ قرض مل جاتا ہے جو آپ کو لوٹانا ہوتا ہے۔ اس کے لئے قرض لیتے وقت بینکوں کے ذریعے اتنی کاغذی کارروائی کی جاتی ہے کہ اگر قرض لینے والا ا شرطوں کو پڑھ لے تو شاید وہ قرض لینے کے بارے میں 10 بار سوچے لیکن شاید ہی ان کاغذوں میں لکھی شرائط کو وہ پڑتھا ہے یا مس کر جاتا ہے کہ ان کاغذوں میں قرض لینے والا اگر قرض نہ دے تو سخت کارروائی بینک کر سکتا ہے۔اور اس لون کے گارنٹر سے پیسہ کسی بھی طرح وصولہ جاسکتا ہے۔ اگر سیدھے سیدھے کہیں تو بینک لون تبھی دیتا ہے جب اسے بھروسہ ہوجاتا ہے کہ رقم واپس لے سکتا ہے، لیکن ایسا دیکھا جارہا ہے کہ اونچی پہنچ والے رسوخ دار لوگ بینک لون ادائیگی میں بھی اپنی مرضی چلاتے ہیں جبکہ عام شہری ایسا کبھی نہیں سوچ سکتا۔ منگلوار کو سپریم کورٹ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بھارتیہ ریزرو بینک کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے کہا ایک طرف جہاں 15-20 ہزار روپے کا زرعی قرض ادا نہ کر پانے پر غریب کسانوں کو زمین بیچنی پڑتی ہے، خودکشی کرنی پڑتی ہے وہیں ہزاروں کروڑ روپے کا قرض نہ لوٹانے والوں کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہے۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی بنچ نے کہا کہ آربی آئی کا کام بینکوں پر نظر رکھنا بھی ہے اس لئے اسے پتہ ہونا چاہئے کہ بینک عام جنتا کا پیسہ کسے قرض کی شکل میں دے رہے ہیں۔ دراصل بنچ نے گزشتہ ماہ ایک میڈیا رپورٹ پر نوٹس لیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ 2013-15 کے دوران 1.14 لاکھ کروڑ کا قرض سرکاری بینکوں نے معاف کیا ہے۔ بنچ نے کہا ایسے کئی لوگ جو ہزاروں کروڑوں روپئے قرض لیتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہے۔ بینک ان کے قرض کو معاف بھی کردیتا ہے۔ وہیں کسانوں کے ذریعے 15-20 ہزار کے قرض کو ادا نہ کرنے پر ان کی زمینوں کو بیچنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے آر بی آئی سے 6 ہفتوں کے اندر ایسی کمپنیوں کی فہرست پیش کرنے کو بھی کہا ہے جن کے لون پر کارپوریٹ لون سے متعلق مختلف اسکیموں کے تحت راحت دی گئی ہے۔ دراصل این جی او سینٹر فار پبلک انٹرسٹ لیٹیگیشن نے عرضی میں سرکاری بینکوں کی طرف سے کچھ کمپنیوں کو دئے گئے قرض کا اشو اٹھایا تھا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015ء میں ہی 40 ہزار کروڑ روپئے کے کارپوریٹ لون کو معاف کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے آر بی آئی کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے سوال کیا کہ کروڑوں روپئے کے قرض لینے والے ڈیفالٹروں کے نام کیوں نہیں سامنے لائے جاتے اور ساتھ ہی غلط طریقے سے قرض دینے پر بینک پر کیوں کارروائی نہیں کی جاتی۔ کئی معاملوں میں تو بینکوں کے افسران کی ملی بھگت بھی سامنے آئی ہے اور اس طرح کے معاملوں میں مانا جاتا ہے بینک افسران کی ملی بھگت کے بغیر اس طرح کا گورکھ دھندہ نہیں کیا جاسکتا۔ آئی بی آئی ریگولیٹر بینک ہے اس لئے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ جنتا کا پیسہ کہاں جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی سوال کیا بڑے قرض کی واپسی کے لئے کیا کیا قدم اٹھائے جارہے ہیں؟ آپ کو قرض ڈیفالٹروں کے نام کا خلاصہ کرنے میں کیا دقت ہے اور اگر آپ کو یہ خفیہ معاملہ لگتا ہے تو این پی اے (نان پرفارمنگ ایسٹریس) کی کل رقم کے انکشاف کیا ہوا۔ بول چال کی زبان میں کہیں تو این پی اے یعنی ایسا قرض جو وصولہ نہیں جاسکتا۔ ہمارا خیال رہے کہ جو بڑے لوگ اپنے رسوخ اور پیسے کی طاقت پر بینکوں کو چونا لگا رہے ہیں ان کے نام سامنے لانے کی ضرورت ہے جو سماجی زندگی میں تو خود کو بڑا بنائے ہوئے ہیں لیکن اندر خانے کچھ اور ہی ہیں۔ آخر جنتا کے پیسے کو یوں برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جنتا کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ آخر کس وجہ سے پیسے ڈوبے اور کون کون لوگ اس کے لئے ذمہ دار ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!