آسمان سے آئی خوشخبری

دیش میں خوشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے کسانوں کے لئے بادلوں نے اچھی خبر بھیجی ہے۔ محکمہ موسمیات نے اپنے جزوی مانسون پیشگوئی میں دیش میں عام سے زیادہ بارش ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ اس کے مطابق اس سال یکم جون سے 30 ستمبر تک اوسطاً 106 فیصد بارش ہونے کا امکان ہے جو عام طور سے ہونے والی بارش سے 6فیصد زیادہ ہوگی۔ دو سال مسلسل خراب مانسون اور خوشک سالی کا شکار دیش واسیوں کے لئے یہ اچھی خبر ہے۔ ہم محکمہ موسیات و دیگر موسم کا حساب کتاب رکھنے والی ایجنسیوں کی پیشگوئی پر اس لئے یقین کرسکتے ہیں کیونکہ ان دنوں موسم کی پیشگوئی کی تکنیک و معلومات کافی بہتر ہوگئی ہیں اور پچھلے کئی برس سے موسم کی پیشگوئیاں صحیح ثابت ہورہی ہیں۔ ویسے بھی تشفی اس بات کی بھی ہے کہ جب سے مانسون کا ریکارڈ رکھنا شروع ہوا تب سے اب تک مسلسل تین سال خراب مانسون رہا جبکہ لگاتار2 سال خراب مانسون کی کئی مثالیں سامنے ہیں۔ اس سال مانسون شروع ہوتے ہوتے بحر ہند میں النینو کا اثر بھی ختم ہوجائے گا جس کی وجہ سے پچھلی بار اچھی بارش نہیں ہوپائی تھی۔ النینو کے بعد آنے والے مانسون میں عموماً عام سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ اس سال بہتر مانسون کی خبر نے کارپوریٹ دنیا ، شیئر بازار، حکومت کے ساتھ ساتھ کسانوں و عام آدمی کے چہروں پر بھی مسکراہٹ لا دی ہے۔ اب امید ہے کہ فصلوں کی پیداوار بڑھنے سے مہنگائی، خاص طور سے غذائی اجناس کی مہنگائی بنیادی سطح پر آجائے گی اور مارکیٹ میں خریدار آئیں گے تو مانگ بڑھے گی اور ایک سال میں دیش کی گروتھ ریٹ بھی بڑھے گی۔ بہتر مانسون سے غذا اور یومیہ ضرورتوں کی چیزوں کی قیمتیں کم ہونا طے ہے۔ اس سے جمع خودی بھی کم ہوگی اور انسانی سرگرمیوں سے یا قدرت کو اپنے کرشموں سے موسم لگاتار غیر معمول ہوتا جارہا ہے لیکن ہم نے اس کے لئے تیاری بھی تو نہیں کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موسم کی بے یقینی کے ساتھ ساتھ ہماری لاپروائی بھی بڑھی ہے۔ اگر ہم سال درسال اتراکھنڈ، کشمیر و بہار کے سیلاب یا مہاراشٹر اور بندیلکھنڈ میں خوشک سالی جھیل رہے ہیں تو اس میں بے موسمی سے زیادہ ہماری خراب پلاننگ اور لاپرواہی بھی ذمہ دار ہے۔ اس سال اگر زیادہ بارش ہوئی تو کئی جگہ سیلاب کا خطرہ بڑھے گا اور ہمیں امید کرنی چاہئے کہ کوئی سیلاب سے پہلے کی طرح بھیانک نہ ہو۔ سیلاب اور خوشک سالی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہی جو آبی انتظام کی ہماری کمزوری ظاہر کرتے ہیں۔ بارش کے پانی کو صحیح ڈھنگ سے کنٹرول کرنے اور اس کا انتظام و اس کے نکاسی کے انتظام ہونے چاہئیں تو سوکھے کی صورتحال سے پانی کی تنگی اور بارش کے زیادہ ہونے سے سیلاب کے خطرے دونوں سے ہی بچایا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!