بھارتیہ جنتا پارٹی کا بڑھتا گراف



Published On 6th September 2011
انل نریندر
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے اچھی خبر ہے جن لوکپال بل پر حکومت کی ناک میں دم کرنے والے سماجی کارکن انا ہزارے نے اپنی بدعنوانی مخالف تحریک میں بھلے ہی ابھی پوری کامیابی نہ حاصل کی ہو لیکن عوام کی نظروں میں انا نے کانگریس کو ولن ضرور بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اور اس کا سیدھا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچا ہے۔ اسٹار نیوز نیلسن نے ایک سروے کیا ہے جو 28 شہروں میں قریب9 ہزار لوگوں پر کیا گیا، اس سروے میں بھاجپا کی آج کی پوزیشن مضبوط بتائی گئی ہے۔ سروے کے مطابق اگر حال میں چناؤ ہوجائیں تو بھاجپا کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ سروے میں 32 فیصدی لوگوں نے بھاجپا کو اقتدار کے لئے اپنی پسند بتایا ہے وہیں 20 فیصدی لوگوں نے کانگریس کو پسند کیا ہے۔ دیش کے سبھی علاقوں میں بھاجپا کو لوگوں نے کانگریس کی بہ نسبت ترجیح دی ہے۔ بھاجپا۔ کانگریس کے جواب میں اندازاً 40.27 ، جبکہ مشرقی ہندوستان میں 20.15 فیصد رائے رہی۔ مغرب میں یہ تناسب46.15 رہا۔ جنوبی ہندوستان میں تجزیئے تھوڑے الگ نظر آئے۔ یہاں ابھی کانگریس کو زیادہ لوگوں نے پسند کیا ہے۔ یہاں کانگریس کو20 فیصدی اور بھاجپا کو16 فیصدی لوگوں نے اپنا ووٹ دینے کی بات کہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اسٹار نیلسن نے مل کر مئی2011 ء میں ایک سروے کیا تھا اس میں کانگریس کو لوگوں نے ترجیح دی تھی لیکن ایک دو مہینے بعد ہی انا کی تحریک نے تصویر بدل دی ہے۔ مئی کے سروے میں دیش بھر میں قریب30 فیصدی لوگوں نے کانگریس کو پسند کیا تھا۔ وہیں بھاجپا کے حق میں 27 فیصدی لوگوں نے اپنا ووٹ کیا تھا۔ اس وقت مغربی ہندوستان کو چھوڑ کر کانگریس دیش کے ہر علاقے میں ووٹروں کی پسند بنی ہوئی تھی۔ سروے کی 10 بڑی باتیں اس طرح ہیں۔ انا کی تحریک جہاں سب سے تیز تھیں وہیں بھاجپا کو سب سے زیادہ فائدہ فائدہ ہوا۔ 54 فیصدی لوگ مانتے ہیں کے کانگریس نے انا کی تحریک سے ٹھیک طرح سے نہیں نمٹا۔ 64 فیصد لوگ مانتے ہیں حالات سے ٹھیک طریقے سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم سے زیادہ ان کے سینئر وکیل ذمہ دار ہیں۔75 فیصدی لوگوں کا خیال ہے کرپشن کے لئے سبھی سیاسی پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔54 فیصدی لوگ مانتے ہیں کہ راہل گاندھی کو اس وقت وزیر اعظم کے عہدے سے دور رہنا چاہئے۔62 فیصد لوگوں کا کہنا ہے اروند کیجریوال نوجوانوں کے ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔ راہل گاندھی، کپل سبل اور پی چدمبرم پرچناؤ میں انا ہزارے ، کرن بیدی اور کیجریوال بھاری پڑ سکتے ہیں۔53 فیصد لوگ مانتے ہیں کہ اگر مضبوط جن لوکپال بل پاس ہو تو پانچ سال میں دیش بھر سے کرپشن ختم ہوسکتا ہے۔ 49 فیصدی لوگوں کا خیال ہے کہ رشوت نہ لینے اور نہ دینے کی قسم کھانے سے بدعنوانی دور نہیں ہوگی۔82 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی مانگ منوانے کا انا کا طریقہ صحیح تھا۔ وہ بلیک میلنگ نہیں تھی۔ اگر انا اور راہل میں چناوی مقابلہ ہو تو 74 فیصدی لوگ گاندھی وادی انا ہزارے کو اپنا ووٹ دیں گے جبکہ صرف17 فیصدی ہی راہل گاندھی کو ووٹ دیں گے۔ کانگریس کے لئے یہ نتیجہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے جنتا کی نظروں میں کانگریس کی آج کی تاریخ میں پوزیشن کیا ہے۔ دیش سے باہر بھی بھاجپا کی حالت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔
دیش میں بھلے کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کو گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی حکومت راس نہ آرہی ہو لیکن بھارت کا پڑوسی اور دنیا کے طاقتور ملکوں میں سے ایک چین گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی حکومت کے طریق�ۂ کار پر قائل ہے۔ اتنا ہی نہیں چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں اور چین کے پالیسی سازوں کو بھی لگ رہا ہے کہ بھارت میں 2014 ء میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا اقتدار میں آسکتی ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ چین نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی سے زیادہ ان کی حکومت میں گجرات میں صنعتی ترقی کو لیکر کافی حیرت زدہ ہے۔ چین کے پالیسی سازوں کو لگ رہا ہے کہ جس طرح سے مودی کی حکومت میں گجرات کی اقتصادی ترقی ہوئی ہے اسی طرح مودی بھارت کی معیشت کو بھی نیا موڑ دے سکتے ہیں۔ چین کی یہ رائے اس لئے بھی بنی کیونکہ بھارت کے کئی بڑے صنعت کار مسلسل مودی کی صنعتی پالیسی کی تعریف کررہے ہیں اور انہیں مستقبل کا بہترین وزیر اعظم بتا چکے ہیں۔ مودی کے کام کے طریقے سے خوش چین گجرات کی صنعتی ترقی اور وہاں باز آبادکاری کے سیکٹر میں مودی سرکار کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ چین کے سفیر زیانگ نے خود یہ پیشکش مودی کے سامنے رکھی ہے۔ چین کے سفیر نے خاص طور پر مودی کو چین آنے کی دعوت بھی دی ہے جسے انہوں نے قبول کرلیا ہے۔ چین کی یہ پالیسی امریکہ اور یوروپ کا کچھ دوسرے دیشوں سے بالکل الٹ ہے۔ گجرات فسادات کو لیکر امریکہ سمیت یوروپ کے کچھ ملکوں میں انسانی حقوق تنظیم مودی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس بنیاد پر ان دیشوں میں مودی کو ویزا تک دینے سے انکار کردیا۔ سال 2005 ء میں جب مودی امریکہ جانے والے تھے تو امریکہ حکومت نے انہیں ویزا نہیں دیا۔ نتیجتاً مودی کو امریکہ میں بسے گجراتیوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہی خطاب کرنا پڑا۔ لہٰذا نریندر مودی کو لیکر چین کا بدلہ نظریہ بین الاقوامی ڈپلومیٹک نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ چین کے پالیسی ساز یہ بھی مان رہے ہیں کہ جس طرح سے اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار کے عہد میں چین اور بھارت کے رشتے بہتر ہوئے تھے اسی طرح کے امکانات وہ مودی میں دیکھ رہے ہیں۔ اصل میں جاپان کے بعد چین بھی نریندر مودی کو ہندوستان کے ہونے والے وزیر اعظم کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ چین اور مودی کے رشتوں میں آرہی قربت کے پیچھے صرف یہی وجہ نہیں ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انا کی تحریک نے بھاجپا نے جس طرح سے اپنے پتے کھیلے ہیں اسے فائدہ پہنچا ہے۔ لیکن بہت کچھ اس پر منحصر کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھاجپا کا نظریہ اور برتاؤ کیسا ہوتا ہے؟ کیا کچھ نیتاؤں کا ذاتی مفاد پارٹی کے مفادات سے یونہی اوپر رہے گا؟ اگر ایسی حالت رہی تو معقول ماحول ہونے کے باوجود ہمیش شبہ ہے کہ پکی ہوئی فصل بھاجپا کاٹ پائے؟ بھاجپا کوسب سے زیادہ خطرہ اندر سے ہے۔ باہر تو اس کی ساکھ بہتر ہورہی ہے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, Congress, Daily Pratap, Lokpal Bill, Vir Arjun,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟