ہیرو سے ویلن بنے کرنل معمر قذافی


Published On 7th September 2011
انل نریندر
لیبیا میں باغیوں کو اب تک نہ تو کرنل معمر قذافی کو پکڑنے میں کامیابی ملی ہے اور نہ ہی وہ ان کے آبائی شہر سرتے پر قبضہ کرپائے۔ پچھلے تقریباً چھ مہینے سے باغیوں اور قذافی حمایتیوں میں جنگ جاری ہے۔ قذافی کی ہمت اور حمایت کی داد دینی ہوگی کہ ایک طرف تو ان کے مٹھی بھر حمایتی فوجی ہیں دوسری طرف مغربی ممالک کی پوری مدد سے لڑ رہے باغی۔ مغربی ممالک خاص کر فرانس، امریکہ ہیں جو ہر ممکن طریقے سے ان باغیوں کی مدد کررہے ہیں۔ امریکہ کا دوہرہ چہرہ ایک بار پھر لیبیا میں بے نقاب ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ترپولی میں لیبیائی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایک عمارت میں پائے گئے دستاویزوں سے انکشاف کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے نے قریب سے معمر قذافی کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انہوں نے لیبیا کے لئے مشتبہ دہشت گردوں سے پوچھ تاچھ میں مدد کی۔ اس واقع سے واشنگٹن اور لیبیا کے حکمرانوں کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
معمر قذافی ایک انقلابی سے ولن کیسے بن گیا؟ سال1969 ء میں جب انہوں نے فوجی تختہ پلٹ کر اقتدار حاصل کیا تھا تو معمر قذافی ایک خوبصورت اور کرشمائی فوجی افسر تھا۔ خود کو مصر کے جمال عبدالناصر کا شاگرد بتانے والے قذافی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد خود کو کرنل کے خطاب سے نوازا اور دیش میں اقتصادی اصلاحات کی طرف توجہ دی۔ جو برسوں کی غیر ملکی بالادستی کے چلتے خستہ حالت میں تھی۔ اقتدار کا تختہ پلٹ سے پہلے کیپٹن کے عہدے پر ہوا کرتے تھے اگر ناصر نے سوئزنگر کو مصر کی بہتری کا راستہ بنایا تھا تو کرنل قذافی نے تیل کے ذخائر کو اس کے لئے چنا۔ لیبیا میں 1950 کی دہائی میں تیل کے بڑے ذخیرے کا پتہ چلا تھا لیکن اس کی کانکنی کا کام پوری طرح سے بیرونی کمپنیوں کے ہاتھ میں تھا جو اس کی قیمت طے کیا کرتی تھیں۔ جو لیبیا کے لئے نہیں بلکہ خریداروں کو فائدہ پہنچاتی تھیں۔ قذافی پہلے عرب حکمراں تھے جنہوں نے تیل کی پیداوار سے ہوئی آمدنی کا بڑا حصہ اپنے ملک کی ترقی میں لگایا اور غیر ملکی کمپنیوں کو پہلی بار یہ سمجھ میں آگیا کہ اب وہ عرب ممالک کا استحصال نہیں کرسکیں گی۔ لیبیا وہ پہلا ترقی پذیر ملک تھا جس نے تیل کی کھدائی سے ملنے والی آمدنی میں بڑا حصہ حاصل کیا۔ دوسرے عرب ممالک نے بھی وہ ہی راستہ اپنایا اور عرب ممالک میں 1970 کی دہائی کی پیٹرو بوم یعنی تیل کی بہتر قیمتوں سے آغاز ہوا۔ اور اس سے ان ملکوں میں خوشحالی کا دور آیا۔
کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ لیبیا میں قذافی نے اپنے شہریوں کو جو سہولیات دی تھیں ان کا موازنہ کرنا مشکل ہے۔ ہر لیبیائی شہری کو بغیر سود کے قرض مل سکتا ہے۔ طلبا کو پڑھائی کے دوران جس کام کیلئے وہ پڑھ رہے ہیں ، اس کی ان کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ تنخواہ اتنی ہی ہوتی ہے جتنا وہ نوکری کرنے پر کما سکتے ہیں۔ یہ انہیں پڑھائی کے دوران دے دی جاتی تھی۔ اگر آپ کو نوکری نہیں مل رہی تو آپ کو سرکار نوکری کی پوری تنخواہ تب تک دیتی رہے گی جب تک آپ کو ملازمت نہیں مل جاتی۔ جب لیبیائی شہری شادی کرتا ہے تو اسے حکومت کی طرف سے ایک گھر مفت دیا جاتا ہے۔ طلبا دنیا میں کہیں بھی پڑھائی کرسکتے ہیں سرکار اس دوران انہیں 2500 امریکی ڈالر کے ساتھ ساتھ رہنے کھانے و کارالاؤنس تک دیتی ہے۔ لیبیا میں گاڑی لاگت قیمت پر ملتی ہے۔ ہر شہری کے لئے مفت تعلیم ، میڈیکل سروس دستیاب ہے۔ کل آبادی میں سے 25 فیصدی لوگ یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آپ کو سڑکوں پر کوئی بھکاری نہیں ملے گا، نہ ہی کوئی ایسا شخص ملے گا جو بے گھر ہو، یہ ہی وجہ تھی قذافی امریکہ، فرانس جیسے ملکوں کی آنکھوں میں کانٹا دکھائی دینے لگے۔ قذافی سے امریکہ کئی وجوہات سے ناراض تھا۔ دراصل قذافی نے کچھ برسوں تک حکومت کرنے کے بعد اسلامی کٹر پسند تنظیموں کی حمایت شروع کردی۔ برلنگ میں ایک نائٹ کلب پر سال 1986 میں ہوا حملہ اسی کیٹگری میں تھا جہاں امریکی فوجی جایا کرتے تھے اور جس پر حملے کا الزام قذافی کے سر منڈ دیا گیا۔ حالانکہ اس کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔ واقعہ سے ناراض امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ترپولی اور بین غازی ہوائی اڈوں پر حملوں کی جھڑی لگادی تھی۔ حالانکہ حملے میں قذافی تو بچ گئے لیکن کہا گیا کہ ان کی گود لی ہوئی بیٹی ہوائی حملوں میں ماری گئی۔ دوسرا واقعہ جس نے دنیا کو ہلا دیا تھا وہ تھا لاکربی شہر کے پاس پین این ہوائی جہاز کو بم دھماکے سے اڑانا۔ جس میں 270 لوگ مارے گئے تھے۔ کرنل قذافی نے بھاری دباؤ کے باوجود حملے کے دو مشتبہ لیبیائی شہریوں کو اسکاٹ لینڈ کے حوالے کرنے سے منع کردیا۔ جس کے بعد لیبیا کے خلاف اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں لگادیں ، جو دونوں افسران کے خود سپردگی کے بعد 1999 میں ہٹائی گئیں۔ان میں سے ایک میگھراہی نام کے افسر کو عمر قید ہوئی ہے۔ جب10 دسمبر 2010 میں تیونس سے عرب دنیا میں تبدیلی کا انقلاب شروع ہوا تو اس سلسلے میں جن ملکوں کا نام لیا گیا اس میں لیبیا کو پہلی لائن میں رکھا گیا تھا لیکن کیونکہ کرنل قذافی مغربی ممالک کے پٹھو بننے سے انکارکرتے تھے اس لئے انہیں زبردستی نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے تیل سے ملے پیسے کو بھی دل کھول کر بانٹا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس عمل میں ان کا خاندان بھی بہت امیر ہوگیا۔ اس لئے جب انقلاب کی بات شروع ہوئی تو انہوں نے کہا اقتدار ان کے پاس نہیں ہے اور دیش میں جمہوریت ہے لیکن بعد میں لوگوں کی ناراضگی سامنے آئی اور ظاہر ہے کرنل قذافی ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کررہے ہیں۔ دیر سویر کرنل قذافی کا پتا صاف ہوگا کیونکہ ان کے خلاف بہت بڑی طاقتیں کام کررہی ہیں اور یہ ہے کرنل قذافی کی ہیرو سے ویلن بننے تک کی ایک مختصر کہانی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟