جس فیصلے پر منی پور جلا وہ منسوخ !

قریب 11 ماہ قبل منی پور ہائی کورٹ کے جس فیصلے کے بعد منی پور میں دنگا بھڑکا اور 200 سے زائد لوگوں کی جان گئی اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ۔50 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنی جان بچانے کیلئے اپنا گھر چھوڑنا پڑا اسی فیصلے کو ہائی کورٹ نے ترمیم کر دیا ہے ۔جمعرات کو جسٹس گول مئی اور فل شل کی بنچ نے پچھلے حکم سے ایک پیراگراف ہٹا دیا انہوں نے کہا یہ پیراگراف سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے موقف کے خلاف تھا ۔دراصل 27 مارچ 2023 کو اپنے فیصلے میں جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے ایک پیراگراف لکھا تھاجس میں انہوں نے منی پور سرکار سے کہا تھا کہ میتئی فرقہ کو ایس ٹی زمرے میںشامل کرنے پر غور کریں ۔اس تجویز کے بعد ریاست میں کوکی فرقہ ناراض ہوا اور 3 مئی سے تشدد بھڑکا جو ابھی تک جاری ہے ۔تشدد کے درمیان ہی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی عرضی لگائی گئی جس پر اب فیصلہ آیا ہے ۔ریاست کی 53 فیصدی میتئی آبادی ہے جو ہندو ہے اور وادی میں رہتے ہیں ۔منی پور کی راجدھانی امپھال میں ہی 57 فیصدی آبادی بستی ہے ۔باقی 43 فیصدی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے ۔غور طلب ہے کہ میتئی کو ایس ٹی کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد کوکی قبائلی والے علاقے یوری چند پور کشیدگی کی شروعات ہو گئی اور ریاست میں پر تشدد تحریک پھیل گئی تھی جو اس فیصلے کی مخالفت کر رہے تھے ۔ان تشدد جھڑپوں میں اب تک 200 سے زیادہ لوگوں کی جان جا چکی ہے ۔ہزاروں بری طرح زخمی ہیں جن میں زیادہ تر کوکی بتائے جاتے ہیں ۔اس درمیان لگاتار تشدد اور بند کے چلتے ریاست میں امن وامان بری طرح متاثر ہوا اب نارتھ ایسٹ کی اس ریاست میں خونی تشدد جاری ہے ۔جسٹس ایفل شل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ حکم قانون کی غلط تشریح کے تحت پاس کیا گیا تھا ۔کیوں کہ عرضی گزار دلیل اور قانون کے بارے میں اپنی غلط فہمی کے سبب ریٹ عرضی کی سماعت کے وقت عدالت کی مناسب مدد کرنے میں ناکام رہے ۔منی پور میں پچھلے سال 3 مئی سے کوکی برادری اور میتئی فرقہ کے درمیان لڑائی جاری ہے ۔قریب 32 لاکھ کی آبادی والے اس چھوٹی سی ریاست میں میتئی فرقہ ایس ٹی کا درجہ مانگ رہا ہے تاکہ وہ ایس ٹی کی اکثریتی علاقو ں میں زمین کا حق حاصل کر سکے اس تشدد کی وجہ سے کوکی برادری اور میتئی فرقہ کے درمیان ایسی خلیج پیدا ہو گئی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو لیکر خدشات کا ماحول پایا جاتا ہے ۔کہ کہیں پردیش میں لگی آگ میں گھی ڈالنے کا کام نہ کردے ۔حالانکہ کورٹ کے اس تازہ حکم کے بعد پردیش میں اب تک کسی طرح کا رد عمل دکھائی نہیں دیا ہے ۔لوک سبھا چناو¿ قریب آنے کے سبب سرکار کو ہوشیار رہنے کی ضرورت پڑی ہے ۔دیکھا جائے تو کورٹ کے غلط فیصلے کا اصل خمیازہ شہریوں کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے ۔ریاست کئی مہینوں سے شورش ہے اور احتجاج کرنا جنتا کا حق ہے ۔یہ سرکار کی نیک نیتی پر ہے کہ وہ فوری طور پر فیصلے لیں اور پریشان جنتا و غیر سماجی عناصر کو قابو کرتے ہوئے پر امن طریقہ سے ثالثی کی جانی چاہیے ۔دیر صحیح آخر کار عدالت نے خود کے فیصلے کو پلٹ کر ریاست میں امن بحال کرنے کا اہم ترین قدم اٹھایا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟