دیش میں جمہوریت کیلئے پریس کی آزادی ضروری !

الگ الگ نظریات کے احترام کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے بدھوار کو کہا کہ نااتفاقی کو نفرت میں نہیں بدلنا چاہئے اور ناہی نفرت کو تشدد میں بدلنے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔نئی دہلی میں رام ناتھ گوئنکہ قابل قدر صحافت ایوارڈ کے 16ویں تقریب میں چیف جسٹس چندر چوڑ مہمان خصوصی کے طور پر شامل ہوئے تھے انہوںنے کہا کہ ہمارے دیش کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے کئی صحافی ناگزیں حالات میں کام کرتے ہیں ۔ لیکن ان حالات اور احتجاجوں کا سامنا کرتے ہوئے اٹل رہتے ہیں یہ ٹھیک ویسی خوبی ہے ،جسے گنوانانہیں چاہئے۔ انہوںنے کہا کہ صحافیوں کی شکل میں ہو سکتا ہے ہم اس نظریہ سے متفق نہ ہو ںجو کسی صحافی نے اپنانا ہو یا جس نتیجے پر پہنچے ہوں ۔میں بھی خود کو کئی دفعہ صحافیوں سے غیر مطمئن پاتا ہوں آخر کار ہم میں سے کون اور دیگر سبھی لوگ متفق ہیں ؟ لیکن عدم اتفاقی کو نفرت میں نہیں بدلنا چاہئے اور نفرت کو تشدد میں نہیں بدلنا چاہئے ۔ جمہوریت کیلئے آزاد پریس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے جیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا دیش کی جمہوریت کے چوتھا ستون ہے اور اس طرح جمہوریت کا ایک اہم جز ءہے ۔ایک طریقہ کار صحت مند جمہوریت کو ایک ایسے ادارے کی شکل میں صحافت کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو حکمراںسرکار سے مشکل سوال پوچھ سکے ۔ یا جیسا کہ عام طور پر جانا جاتا ہے،اقتدار سے سچ بولیں ،کسی بھی جمہوریت کی کی اقتدار سے سمجھوتہ تب کیا جا تا ہے جب پریس کو ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ الگ کسی دیش کو جمہوریت میں بنے رہنا ہے تو پریس کو آزاد رہنا ہوگا ۔ انہوںنے کہ ذمہ دار صحافت سچائی کی کرن ہے جو ہمیں بہتر مستقبل کی طرف لے جاتی ہے یہ انجن جو سچائی ،انصاف اور برابری کی تلاش کی بنیا دپر جمہوریت کو آگے بڑھاتی ہے ۔ ڈیجیٹل دور کی چنوتیوں میں صحافیوں کیلئے رپورٹینگ میں پختہ غیر جانبدار اور ذمہ داری کے پیمانوں کو بنائے رکھنا پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس کے چیف ایڈیٹر راج کمل جھاں نے کہا کہ آزاد پریس کیلئے آپ کے نظریات اور چتاو¿نیوںسے ہمار ا یہ بھروسہ پختہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ صحافیوں اور صحافت کیلئے ایک دھورو تارا بنا رہے گا۔ انہوںنے کہاکہ سال در سال ایک کے بعد ایک معاملے اس چکر سے آگے کی راہ کو روشن کیا ہے ۔ اور عدالتیں ہماری آزادی کو بنائے رکھنے کیلئے حکمراں فریق پر دباو¿ بناتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب روشنی ہلکی ہوتی ہے جب ایک رپورٹر کو آتنک وادیوں کیلئے بنے قانون کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے ۔ دیگر کسی سوال پوچھنے کیلئے ، ایک کارٹون بنانے کیلئے اسے جیل میں ڈال دیا جاتاہے ۔تب ہم دھورو تارے کی طرف دیکھتے ہیں اور ہمیں روشنی ملتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟