الوداع شیلا !بہت یاد آئے گی

تین مرتبہ دہلی کی وزیر اعلی رہی سینئر کانگریس لیڈر شیلا دکشت کا81سال کی عمر میں دیہانت ہوگیا اس کے ساتھ ہی ہم نے سب سے کرمٹ ،پیاری شیلا جی ہمیشہ کیلئے کھودیا اب تو بس ان کی یادیں ہی رہ گئی ہیں اور طویل عرصے سے علیل تھیں اور ان کی تین مرتبہ پائی پاس سرجری ہوچکی تھی ۔واضح ہوکہ انہیں الٹی کی شکایت کے بعد سنیچر کی صبح فورٹیز اسکاٹ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا ۔دل کا دورہ پڑنے سے سہ پہر تین بجکر 55منٹ پر وہ دنیا سے چلی گئیں 15سال تک دہلی کی وزیر اعلی رہی شیلا جی کو قومی راجدھانی کے وکاس کا چہر ہ مانا جاتاہے ہسپتال کے مطابق شیلا جی کو دورہ پڑنے کے چلتے ہسپتال لایا گیا تھا لیکن دوبارہ پھر دوپہر میں دل کا دورہ پڑا او رنہیں بچایا نہیں جاسکتا انکا نگم بودھ گھاٹ پر پورے سرکا ری اعزاز کے ساتھ انتم سنسکار کیا گیا ۔شیلا جی کی انتم یاترا میں لوگوں کی بھیڑ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عوام میں کتنی ملنسار تھیں جو سب کی باتیں توجہ سے سنا کرتی تھیں چاہئے وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتا ہو ۔مجھے وہ اکثر مذا ق میں کہا کرتی تھیں کہ انل تم تو بھاجپائی ہو جبکہ انہیں معلوم تھا کہ میں آزاد نظریات کا انسان ہوں شیلا جی سے میرا بہت پرانا رشتہ رہا ہے ان کے شوہر سورگیہ ونود کشت ہم ماڈراناٹس کے ڈرامہ گروپ کے اگرودوتھ کے ممبر تھے اس گروپ کے ذریعہ پیش ڈاراموں میں کام کرتے تھے یہ بات ساٹھ دہائی کی ہے تبھی سے میرا شیلا جی سے رابطہ قائم ہواتھا سال میں دوتین بار شیلا جی سے ملنے کا سوبھاگیہ رہا جب وہ وزیر اعلی تھیں تب میرے سورگیہ پتا شری کے نریند ر کے جنم دن کیلئے میں شیلا جی کو دعوت دینے گیا تھا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ پتاشری بھاجپا کے کٹر حمایتی تھے لیکن پھر بھی شیلا جی ہمارے گھر ٹالسٹا ئے مارگ پر تشریف لائیں تھیں۔جب بھی میں ان سے ملتا تھا وہ بڑی گرمی جوشی سے ملا کرتی تھیں اور لمبی بات چیت وہ بحث ہوتی تھی شیلا جی شادی سے پہلے شیلا کپور کے نام سے جانی جاتی تھیں ان کے شوہر آئی اے ایس ونود کمار دکشت کانگریس بڑے نیتا اما شنکر دکشت کے صاحبزادے تھے ۔1974میں اندرا کے دور میں اما شنکر دکشت دیش کے وزیر داخلہ بنے سیاست کی اے بی سی ڈی کانگریس میں لگا تار مضبوط ہوتے ہوئے سیکھی تھی ۔1980میںایک ریلویاتراکے دوران ونود کمار دکشت کی موت ہوگئی اس کے بعد شیلا دکشت اپنے سسر کے ساتھ سیاست میں سرگرم ہوگئیں اور 1984میں ہی عام چناو ¿ میں قنوج پارلیمانی سیٹ جیت کر لوک سبھامیں پہنچی 1991میں شیلا نے اپنے سسر کی وراثت پوری طرح سنبھال لی شیلا جی کا جنم 31مارچ 1938کو پنجاب کے کپور تھلہ کے کھتری پنجابی خاندان میں ہواتھا دہلی کے کانونٹ جیسس میری اور دہلی یونیور سٹی کے مرانڈا ہاو ¿س کالج میں انہوں نے تاریخ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اب بھلے ہی ایرن لیڈی شیلا دکشت بیمار ی بیشک لیکن انھوں نے کئی بار زندگی اور موت سے مقابلہ کیا پنجاب چناو ¿ میں کمپین کے دوران اس گاڑی کو بم سے اڑا دیا گیا تھا جس کا استعمال شیلا دکشت کررہی تھیں اتفاق سے وہ دھماکہ سے چند منٹ پہلے گاڑی سے اتر گئی تھیں اورلیکن ان کی آنکھوں سے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی کے پرخچے اڑگئے تھے ۔اس حادثے کا ذکر اپنی کتاب مائی ٹائم مائی لائف میں بھی کیا ہے اس حادثے کو یاد کر روح کانپ جانے والے منظر کو بیاں کیا ہے لیکن ملنسار خوش مزاج اور اپنی برا ئی کو صبر سے سننے والی شیلا جی کو ہر کوئی شوشل میڈیا پر نم آنکھوں سے شردھانجلی دے رہے ہیں راہل گاندھی نے کہا کہ میں شیلا دکشت جی کی وفات سے بہت دکھی ہوں وہ کانگریس کی پریہ بیٹی تھی جن کے ساتھ میرا قریبی رشتہ رہا ہے وہ سبھی کا ساتھ لیکر چلتی تھیں اور انکے اپوزیشن لیڈروں سے بھی اچھے رشتے رہے جس کے چلتے بڑی سے بڑی مشکل دور ہوجاتی تھی ایسی کئی مثالیں ہیں نہ صرف انھوں نے اپنی پارٹی میں حریفوں بلکہ حریفوں کوبھی اپنا مرید بنالیاتھا ایک وقت تھا جب دہلی کی سیاست میں شیلا جی کو ایک ونر مانا جاتھا آج دہلی کے شہری آلود گی سے پاک بنانے کیلئے سی این جی ،میٹرو سے این سی آر سے جوڑ نے اور فلائی اوور سے ٹرافک جام سے نجا دلانے والی شیلا جی کو بھلا یا نہیں جاسکتا وہ آخرتک دہلی کے لئے لڑتی رہی شیلا جی کی کمی ہمیشہ محسو س ہوتی رہی گی ان کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!