بلیو وھیل کے بعد پب جی بیٹل نیا سر درد
امتحان میں غور کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے موبائل فون پر انٹرنیٹ کے ذریعہ کھیلے جانے والے پب جی گیم بیٹل کا ذکر کیا تھا ۔گیم کی لت میں ڈوبے لڑکوں کی عمر آٹھ سے بائس سال کے درمیان زیادہ ہے ان لڑکوں کو فون کے ایپ پر پب جی بیٹل (کھیلنا)اتنا پسند ہے کہ یہ آفس ٹائم بھی اسی کھیل میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بلیو وھیل کے بعد پب جی دوسرا سب سے زیادہ لت لگانے والے کھیل کی شکل میں سامنے آیا ہے جبکہ اور بھی کھیل تفریح کے لئے ہیں لیکن یہ کشیدگی بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے ۔صفدر جنگ اسپتال کے ایک سنئیر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بیلو وھیل کی طرح پب جی گیم بھی بچوں کو غصیل اور لڑاکو بنا رہا ہے گیم میں گولیاں چلانا ایک دوسرے کو قتل کرنا ،لوٹ مار اور جارحیت وغیرہ کو بڑھاوا دے رہا ہے ۔دہلی میں واقع ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال(آر ایم ایل)میں علاج کے لئے پہنچے بچوں کی کاﺅنسلنگ میں بھی اس کی تصدیق بھی ہو رہی ہے ۔بیلو وھیل گیم بچوں کو خودکشیاں کرنے کے لئے اکسا رہا تھا ۔جبکہ پب جی دوسروں کی جان لینے کے لئے ایک طرح سے معصوموں کی فوج تیار کر رہا ہے ۔صفدر جنگ اور آر ایم ایل اسپتال میں پب جی سمیت آن لائن گیم کی لت سے پریشان ہر دو ہفتے سے دو تین مریض یومیہ پہنچ رہے ہیں ۔ان میں پندرہ سال تک کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے ۔اس گیم میں ایک آئی لینڈ پر ایک شخص کو اتار دیتے ہیں اور گروپ بنا کر اس شخص کو اپنے آپ کو بچا کر رکھنے کے لئے اوروں کو گولی مارنی ہوتی ہے ۔اسٹڈی کے مطابق اس گیم کے چلتے زیادہ تر بچے تشدد کی رویہ میں ڈھل جاتے ہیں یہی نہیں ان بچوں کا دماغ ہی نہیں بلکہ جسمانی توازن بھی بگڑ رہا ہے ۔اتنا ہی نہیں اس گیم کے شکار کچھ بڑے لوگ بھی ہیں جو اپنے کام کو چھوڑ کر لنچ ٹائم میں اس گیم کو کھیلتے ہیں اور تشدد کے رویہ کو اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔بہرحال اس گیم ذریعہ سے نوجوانوں اور بڑوں میں ایسا نظریہ قائم ہو رہا ہے جس سے وہ اپنا بچاﺅ کرتے ہوئے اورں کو موت کے گھاٹ اتار دیں ۔یہ ضروری ہے کہ حکومت ہند اس گیم پر پابندی لگائے اور ہماری نوجوان پیڑھی کو اس نئی لت سے بچائے چونکہ وزیر اعظم نے اس گیم کا ذکر کیا ہے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس گیم پر پابندی لگانے کے لئے ضروری قدم جلد اُٹھائے جائیں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں