کتنا کامیاب رہا نوٹ بندی کا فیصلہ؟
غیر اعلانیہ پراپرٹی یا دوسرے الفاظ میں کہیں تو بے نامی دھن دولت کو سسٹم سے باہر کرنے کی کوشش میں مودی حکومت نے کیا پوری کامیابی پائی ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس قدم کو نوٹ بندی کا نام دیا تھا۔اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ نوٹ بندی میں آخر غلطی کہاں ہوئی؟ ریزرو بینک آف انڈیا کی سالانہ رپورٹ کے 195 صفحات میں ان سوالوں کے جواب تلاش کئے جاسکتے ہیں جو پچھلے 10 مہینوں سے ہر ہندوستانی پوچھ رہا ہے۔ نوٹ بندی کامیاب رہی یا ناکام؟ آر بی آئی کے اعدادو شمار سے تو نہیں لگتا کہ نوٹ بندی بڑے پیمانے پر کامیاب رہی۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ نوٹ بندی پوری طرح ناکام رہی۔ نوٹ بندی سے فائدہ کم ہوا اور نقصان زیادہ۔ پچھلے 8 نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک طے کیا کہ 500 اور 1000 کے نوٹ ملک کی معیشت میں چلن سے ہٹا دئے جائیں گے جو کل 15.44 کھرب ہیں۔ وزیر اعظم نے اس فیصلہ کی وجہ دیش کو یہ بتائی کہ ایسا معیشت میں موجودہ جعلی کرنسی اور کالی کمائی اور دو نمبر کے پیسے پر کارروائی کرنے کے لئے کیاگیا۔ سرکاری ریلیز میں اس فیصلہ کی تفصیل میں بھی یہ ہی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ کالا دھن وہ پیسہ ہوتا ہے جو کمایا تو جاتا ہے لیکن اس پر سرکار کو ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد 8 نومبر کی آدھی رات سے 500 اور 1000 کے نوٹ بازارمیں بیکار ہوگئے۔ جن کے پاس یہ نوٹ تھے انہیں بینکوں میں جمع کرانے کیلئے کہا گیا۔ نوٹ بندی کے دوران جمع کئے گئے پیسے کو بعد میں بینک سے نکالا جاسکتا تھا حالانکہ شروعات میں یہ پیسے نکالنے کی حد کو لیکر کچھ بندیشیں بھی لگائی گئی تھیں۔ سرکار کو یہ امید رہی ہوگی کہ جو پیسہ کالے دھن کی شکل میں موجود ہے وہ بینکوں میں جمع نہیں کیا جائے گا اور جن کے پاس یہ پیسہ ہے وہ اپنی پہچان ظاہر نہیں کرنا چاہئیں گے اس طرح سے کالے دھن کی پوری رقم برباد ہوجائے گی۔ لیکن آر بی آئی کی رپورٹ تو دوسری ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے 15.28 ارب مالیت کے نوٹ 30 جون تک بینکوں میں جمع کرائے گئے اس کا سیدھا سا مطلب نکلتا ہے کہ چلن سے ہٹائے گئے پیسے کا 99 فیصدی پیسہ بینکوں میں واپس لوٹ کر آگیا یعنی نقدی کی شکل میں موجود تقریباً پورا ہی کالا دھن بینکوں میں جمع کرادیا گیا اور امیدوں کے برعکس برباد نہیں ہو پایا۔ کئی لوگ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ جن کے پاس کالا دھن تھا انہوں نے اپنا پیسہ دوسرے عام لوگوں کے بینکوں کے کھاتے میں جمع کرادیا اور اسی وجہ سے 500 اور 1000 کے زیادہ تر نوٹ بینکنگ سسٹم میں واپس آگئے۔ جہاں تک نقدی نوٹوں کا سوال تھا اس پر بھی زیادہ کچھ ہوتے نہیں دکھائی دیا۔ ریزرو بینک کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اپریل 2014 ء سے مارچ 2017ء کے درمیان 500 روپے (پرانی سیریز والے) اور 1000 کے 573891 جاری نوٹوں کی پہچان کی گئی۔ نوٹ بندی میں بازار میں چلن سے ہٹائے گئے نوٹوں کی کل تعداد 24.2 ارب تھی۔ اب 2016-17 میں پکڑے گئے جعلی نوٹوں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھیں تو چلن سے ہٹائے گئے نوٹوں کا یہ صفر فیصدی کے قریب ہے۔ اس کے پچھلے سال 500 اور 1000 کے نقلی نوٹوں کی تعداد 404794 نوٹوں کی پہچان کی گئی تھی ایسا بغیر کسی نوٹ بندی کے ہوا تھا تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نوٹ بندی اپنے دو بڑے نشانوں کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایک عجیب و غریب بات یہ بھی ہے کہ معیشت میں نقدی کی شکل میں موجود کالے دھن کو لیکر پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا ۔سرکار نے نوٹ بندی کے اعلان کے بعد اسے تسلیم بھی کیا۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے 16 دسمبر 2016ء کو لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں یہ بات مانی کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے چھاپوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے کالے دھن کا محض 5 فیصدی حصہ ہی نقدی کے طور پر رکھتے ہیں۔ بھلے ہی پبلک طور پر کالے دھن کو لیکر کوئی اعدادو شمار موجود نہیں تھا لیکن ماہر اقتصادیات کہاں رکنے والے تھے۔ وہ اپنے اپنے اعدادو شمار لیکر آئے ۔ انہوں نے مودی سرکار کے فیصلوں کوصحیح ثابت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ کس بنیاد پر نوٹ بندی کے فیصلے کو صحیح بتا رہے ہیں۔ بھارت ایک بڑا کیش اکانومی دیش ہے اور نوٹ بندی سے اسے بہت چوٹ پہنچی ہے۔ یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی جماعت بھارتیہ مزدور سنگھ نے بھی نوٹ بندی پر کہا کہ غیر منظم سیکٹر کی ڈھائی لاکھ یونٹیں بند ہوگئی ہیں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرپر بہت برا اثر پڑا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے نوکریاں گنوائی ہیں۔ زیادہ تر نقدی میں لین دین کرنے والے زرعی سیکٹر پر بھی نوٹ بندی کا بہت برا اثر پڑا۔ کسانوں کو ان کی پیداوار کے لئے واجب قیمت نہیں مل رہی ہے۔ کئی جگہوں پر کسانوں نے مظاہرے کئے اور ریاستی حکومتوں کو انہیں قرض میں راحت دینی پڑی اور ان سب چیزوں کے علاوہ سرکار کی پالیسی سے نقدی کی قلت بڑے پیمانے پر محسوس کی گئی۔ لوگ اپنا ہی پیسہ نکالنے کیلئے کئی دنوں تک اے ٹی ایم کے باہر قطار میں کھڑے دکھائی دیتے رہے۔ بینکوں اور اے ٹی ایم کے سامنے قطار میں کھڑے ہونے اور پیسے کی قلت سے 104 لوگوں کی موت بھی ہوگئی تھی۔ دو چار ہزار روپے نکالنے کیلئے لوگوں کو دن بھر کھڑا رہنا پڑا مگر سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کی اس بات پر جائزہ لیا جائے تو سرکار نے 16 ہزار کروڑ روپے بچانے کے لئے 21 ہزار کروڑ روپے پھونک دئے ہیں۔ جہاں تک مودی سرکار کی بات ہے اس کی امید کم ہی ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے۔ سرکار نوٹ بندی کے مثبت پہلوؤں کو بتانا جاری رکھے گی۔ جو باتیں نومبر سے کہی جارہی ہیں اس مورچے پر زیادہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔ یہ نوٹ بندی نہیں تھی یہ نوٹ بدلنے کی کارروائی تھی ۔ لوگوں نے پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں میں بدلوا لیا۔ نوٹ بندی کے سبب موجودہ مالی سال کی سہ ماہی میں یعنی اپریل سے جون تک دیش کی معیشت ذرعی شرح محض 5.7 فیصدی رہی۔ پچھلے سال اسی میعاد میں یہ 7.9 فیصد تھی۔ 2014 میں چوتھی سہ ماہی میں یہ شرح سب سے زیادہ نچلی سطح پر آگئی اس کی وجہ سے نوٹ بندی کا اثر اور جی ایس ٹی لاگو ہونے سے پہلے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سستی بھی ہے۔سب سے زیادہ دھکا مینوفیکچرنگ سیکٹرکو لگا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی اگر سرکار کہے کہ نوٹ بندی کامیاب رہی تو کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں