پرائیویسی بنیادی حق ہے یا نہیں

جمعرات کو سپریم کورٹ کی 9 ججوں کی آئینی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں اس سوال پر کافی حد تک روشنی ڈالی ہے کہ قانون کی نظر میں پرائیویسی دراصل کیا چیز ہے اور اس میں دخل اندازی کرنے کی سرکار کو کس حدتک کی آزادی ہے؟ 1954 اور 1961 میں سپریم کورٹ کی دو بنچ کے فیصلوں میں رائٹ ٹو پرائیویسی کو بنیادی حق کے دائرہ میں رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ تازہ فیصلہ ہندوستانی جمہوریت کی سنجیدگی کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئینی کی دفعہ 21 میں بنیادی حقوق کی سہولت ہے جو زندگی اور شخصی آزادی کے ساتھ نتھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پرائیویسی کا حق اخلاقی طور سے بنیادی حقوق کے دائرہ میں ہے اور کسی بھی شخص کو اس کی زندگی اور شخصی آزادی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو اس معنی میں ترقی پسند کہا جانا چاہئے کہ اس نے اپنے ہی سابقہ فیصلہ کوپلٹنے میں ذرا بھی قباحت محسوس نہیں کی تھی جس میں پرائیویسی کے حق کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا آئینی بنچ میں پرائیویسی کے حق کو دفعہ21 میں دئے گئے جینے کے حق اور آئین کے حصہ 3 میں دئے گئے بنیادی حقوق کی شکل میں تسلیم کیا ہے۔ مقدمے میں دونوں فریقین نے زوردار دلیلیں اور حوالہ دئے۔ پہلی بحث میں فریق کی رکھی گئی دلیل آج کل اسمارٹ فون تک فنگر پرنٹ مانگ رہا ہے ۔ ایسا کرنے سے یوزر کی پہچان، اس کی جگہ، وقت وغیرہ سب کچھ سروسز دینے والے کے پاس چلا جاتا ہے۔ ایسے میں پرائیویسی کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی جانکاری کہیں جائے تو پھر اسے کیسے لیا جاسکتا ہے؟ یہ کہنا تھا گوپال سبرامنیم ایڈوکیٹ کا ۔ سالیسٹر جنرل سولی سہراب جی نے کہا کہ پریس کی آزادی کی تشریح دفعہ19(1) کے تحت کی جاتی ہے لیکن آئین میں پریس کی آزادی کہیں نہیں لکھی ہوئی ہے۔ جوآئین میں نہیں لکھا وہ نہیں مانا جائے گا ایسا نہیں ہوسکتا۔ آئین سبھا بھی اس بات کو نہیں مانتی۔ ایڈوکیٹ شام دیوان کا خیال تھا کہ ہمارا جسم ہمارا ہے اس پر ہمارا پورا حق ہے، کوئی اس حق میں دخل نہیں دے سکتا۔ کوئی ہمیں انگلی اور آنکھوں کا سمپل دینے کے لئے مجبور نہیں کرسکتا۔ پاسپورٹ اور ڈرائیوینگ لائسنس پر تو ہماری مرضی ہے ہم بنوائے یا نہ بنوائیں لیکن آدھار کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ میرا حق ہے کہ کسی کو اپنی پہچان دوں یا نہ دوں۔ آنند گورور سینئر ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ پرائیویسی کا سوال پہلے کبھی نہیں اٹھاتھا۔ انسانی حقوق سیدھے سیدھے پرائیویسی کے حق سے جڑا ہے۔ اسے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں پرائیویسی کی تشریح کرنی ہوگی۔ باقی کے بنیادی حق اس سے جڑے ہیں اور انہیں محفوظ کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ایڈوکیٹ این۔پیا نے کہا کہ کورٹ کے کئی ایسے فیصلہ ہیں جس میں پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق مانا گیا ہے۔ آج دیش بھر میں 40 کروڑ انٹر نیٹ اور 50 کروڑ موبائل یوزر ہیں۔ ان کی پرائیویسی کا ڈاٹا کیسے محفوظ ہوگا؟ بنیادی حق کے ہی دائرہ میں دیکھنا ہوگا کہ کہاں پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ خلاف بولنے والوں میں اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ زندگی اور آزادی کے حق کے سامنے پرائیویسی بہت چھوٹی اہمیت رکھتی ہے۔
آدھار کو جن تمام اسکیموں سے جوڑا گیا ہے وہ اسکیمیں زندگی سے جڑی ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کھانا، رہائش، روزگار جیسی چیزیں پرائیویسی سے چھوٹی ہیں؟ اگر کبھی آزادی اور زندگی کے حق کے درمیان ٹکراؤ ہوا تو زندگی کا حق ہمیشہ اوپر رہے گا۔ کیونکہ زندگی کے بغیر آزادی ہے ہی نہیں، اس لئے پرائیویسی کو بنیادی حق کے لیول پر نہیں لاسکتے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے کئی قانون بنائے ہیں اور ان کے تحت پرائیویسی کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسے بنیادی حق کی سطح پر لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئین سازیہ کو اس بات کا علم ہے کہ پرائیویسی کو کس سطح تک محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے آئین سازیہ پر ہی چھوڑ دو۔ آدھار میں جو ڈاٹا دیا گیا ہے اس کا استعمال کر اگر سرکار سرویلنس بھی کرنا چاہئے تو ناممکن ہے۔ 
آدھار ایکٹ کہتا ہے اس کا ڈاٹا پوری طرح سے محفوظ ہے۔ ڈاٹا پروٹیکشن بل بھی آنے والا ہے۔ موجودہ مودی سرکار تمام اسکیموں کا فائدہ اٹھانے والوں سے لیکر بینک کھاتا کھولنے، انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے تک کے لئے جس طرح سے آدھار کو ضروری کررہی ہے اس کی ہی وجہ سے پرائیویسی کے حق کا معاملہ اٹھا ہے۔ شہریوں کے بایو میٹرک پہچان سے جڑے 12 نمبروں کے آدھار نمبر کو لیکر یہ اندیشات جتائے جاتے ہیں کہ ان کا بیجا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہی نہیں بات لوگوں کے کھانے پینے اور شخصی پسند اور نا پسند تک آگئی تھی اس سے کون انکارکرسکتا ہے کہ سرکار فلاحی اسکیموں کا فائدہ سبھی فائدہ اٹھانے والوں تک پہنچنا چاہئے۔ اس میں آدھار کارگر ثابت ہورہا ہے اور دوسری طرف آدھار کی جوازیت سوالوں کے گھیرے میں آرہی ہے جسے سپریم کورٹ میں مختلف مفاد عامہ کی عرضی کے ذریعے چنوتی دی گئی ہے۔ کسی بھی جمہوری دیش میں اپنے شہریوں کی زندگی کو محفوظ رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر سماعت کے دوران یہ احساس کرایا گیا یعنی سرکار مبینہ طور پر مان رہی ہے کہ حالانکہ بنچ نے صرف پرائیویسی کے حق پر فیصلہ سنایا ہے اور آدھار اور پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہورہی ہے یا نہیں اس پر تین ججوں کی بنچ سماعت کرے گی۔ پھر یہ بھی فیصلہ جزوی طور پر آدھار کے دائرے کو آگے بڑھانے کی کارروائی کو متاثر کرسکتا ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ اب کوئی سرکاری یا پرائیویٹ ایجنسی اگر آدھار سے جڑی یا کوئی جانکاری مانگتی ہے تو اس پر اعتراض درج کرایا جاسکتا ہے۔ کوئی شخص آپ کی نجی زندگی میں دخل دے رہا ہے تو اس کے خلاف وہ عدالت جاسکتے ہیں۔ سرکار کو بھی کوئی قانون بناتے وقت چوکس رہنا ہوگا پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے۔ شہری کے کوئی بھی حقوق مکمل نہیں ہوتے چاہے وہ بنیادی حق ہی کیوں نہ ہو؟ البتہ سرکار کے پاس ان حقوق کو محدود کرنے کیلئے کچھ حق ہونے چاہئیں ورنہ اختیارات کی سیریز تبدیل ہونے کا برابر ڈر بنا رہے گا۔ اب سرکار ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے متعلق ڈاٹا کی حفاظت کے لئے پختہ قدم و بڑا قانون لیکر آئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!