کیا نیتا جی کو قتل کیا گیا، ان کے خاندان کی جاسوسی کروائی گئی

تاریخپر اگر ہم نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ حکومتیں ہمیشہ جاسوسی کرواتی رہی ہیں۔ ہندوستان میں تو خفیہ نظام دور قدیم سے ہی قائم رہا ہے۔ دیش میںآج جاسوسی کے سسٹم کاباقاعدہ ڈھانچہ ہے۔ یہ انگریزں کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ خاص کر 1857 ء کے بعد قوم پرستوں پر نظر رکھنے کی ضرورت تھی۔آزادی کے بعد ان خفیہ ایجنسیوں کا کنٹرول مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آگیا۔وقتاً فوقتاً لیکن یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ سرکار اپنے حریفوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے ان کی جاسوسی کراتی ہے۔ اب نیتا جی سبھاش چندر بوس کی جاسوسی کروانے کا الزام لگ رہا ہے۔نیتا جی کی موت پر لکھی کتاب ’انڈیاز بگیسٹ کور اپ‘ مصنف انوج دھر نے ایک خط کے حوالے سے الزام لگایا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو خود نیتا جی کی جاسوسی کی نگرانی کررہے تھے اور ہدایت دے رہے تھے۔ یہ خط انہوں نے حال ہی میں افشاں کئے ہیں جو دو فائلوں سے لئے گئے ہیں۔ اس خط کے مطابق 25 نومبر1957 ء کو نہرو نے اس وقت کے خارجہ سکریٹری سبی مل دت کو خط لکھ کرنیتا جی سبھاش چندر بوس کے بھتیجے امت بوس کے جاپان دورہ کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔ خط میں نہرو نے لکھا: میں ٹوکیو میں واقع رین کوزی مندر کے اپنے دورے کے کچھ تصویریں بھیج رہا ہوں، اس دورہ کے بعد مجھے جانکاری ملی ہے کہ شرد چندر بوس (نیتا جی کے بھائی) کے بیٹے امے بوس بھی ٹوکیو گئے تھے۔ اس لئے میں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ ٹوکیو میں معمور سفیر کو خط لکھ کر یہ جانکاری حاصل کریں کہ امے وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ کیا انہوں نے سفاتخانے سے رابطہ قائم کیا تھا، یا رین کوزی مندر گئے تھے؟ اس خط کا جواب دیتے ہوئے جاپان میں اس وقت کے ہندوستانی سفیر سی ایس جھا نے کہا تھا کہ امے بوس کی جاپان میں کوئی مشتبہ سرگرمی کی خبر نہیں ہے۔ ابھی یہ تنازعہ رکا نہیں کہ الزام در الزام کا سلسلہ چل رہا ہے کہ نیتا جی کے بندوقچی رہے جگرام نے ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ جنگ آزادی کے مہانائک رہے نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ذاتی بندوقچی بزرگ مجادِ آزادی جگرام سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ نیتا جی کی سڑک حادثے سے موت نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کو قتل کرایا گیا ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہوائی حادثے میں ان کی موت ہوتی تو کرنل حبیب الرحمان زندہ کیسے بچتے؟ وہ دن رات سائے کی طرح نیتا جی کی ساتھ رہا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد کرنل پاکستان چلا گیا تھا۔ 100 فیصدی اندیشہ ہے کہ نیتا جی کو روس میں پھانسی دی گئی تھی۔ ایسا نہرو کے کہنے پر روس کے ڈکٹیٹر اسٹالن نے کیا ہوگا۔ 93 سالہ جگرام نے بتایا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری کے چار سال بعد چال لیڈروں کو جنگی مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان میں جاپان کے توزو، اٹلی کے مسولن، جرمنی کے ہٹلر اور بھارت کے سبھاش چندر بوس شامل تھے۔ توزو نے چھت سے کود کر اپنی جان دے دی تھی۔ مسولن کو پکڑ کر مار دیا گیا تھا۔ ہٹلر نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔ صرف نیتا جی ہی بچ گئے تھے انہیں جاپان نے روس بھیج دیا تھا۔چار سال 13 مہینے تک نیتا جی کے بندوقچی رہے جگرام نے بتایا دیش کی آزادی میں نیتا جی کے مقابلے پنڈت نہرو کا کردار کچھ بھی نہیں تھا۔ گاندھی ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے بڑے ڈکٹیٹر اور حکمراں نیتا جی کے سامنے بونے دکھائی پڑتے تھے۔ ان کے رشتے داروں کی جاسوسی کی خبر سے اس بات پر مہر لگ گئی کہ نہرو کس قدر نیتا جی سے خوف کھاتے تھے۔ نہرو ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ اگر نیتا جی سامنے آگئے تو پھر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ادھر کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کی جاسوسی کرنے کا الزام دشمنی پر مبنی ہے۔ دیش کو مضبوط و عظیم دیش بنانے والی بڑی ہستیوں کو بدنام کرنے کیلئے موجودہ حکومت ادھورے سچ کا پروپگنڈہ کررہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!