پی ایم تو جوڑنے کا کام کررہے ہیں اور یہ نیتا توڑنے کا

شیو سینا ایم پی اور پارٹی کے ماؤتھ پیس سامنا کے نگراں مدیر سنجے راوت نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم سماج سے ووٹ کا حق چھین لیا جائے۔ ان کی رائے میں مسلم سماج کو ایک ووٹ بینک کی شکل میں استعمال کیا جارہا ہے جو اس فرقے کے مفادات کے لحاذ سے ٹھیک نہیں ہے اس لئے ان کے مطابق خوش آمدی کی اس حکمت عملی کو ختم کرنا ہے تو اس فرقے کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا جانا چاہئے۔ بیشک یہ ٹھیک ہے کہ اقلیتوں کو ایک ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور اس خوشامدی کی پالیسی پر لگام لگنی چاہئے لیکن کسی فرقے کا ووٹ کا حق چھیننے کی بات کرنا سراسر غلط ہے۔ سنجے راوت کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کی چاہے جتنی تلخ نکتہ چینی کریں لیکن ووٹ کا حق چھیننے کی بات کر انہوں نے بڑی مصیبت مول لے لی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ جن اوویسی بھائیوں سے شیو سینا کا سیاسی مقابلے کے پس منظر میں راوت کا یہ بیان آیا ہے فرقہ وارانہ سیاست کرنا ان کی پہچان رہی ہے۔ راوت کی اس بات سے کچھ حد تک متفق ہوا جاسکتا ہے کہ ووٹ بینک کی سیاست کسی بھی گروپ کے لئے فائدے مند نہیں ہوتی لیکن دیش میں شاید ہی کوئی پارٹی ایسی ہو جسے بڑے یا چھوٹے پیمانے پر ووٹ بینک کی شکل میں استعمال نہیں کیا جارہا ہو۔ اگر کچھ پارٹیاں مسلم سماج کو اپنا ووٹ بینک مانتی ہیں تو کچھ پارٹیاں فخر سے ہندو ووٹ بینک بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور چناؤ کے موقعے پر اس ووٹ بینک کا سارا خزانہ اپنے نام پر کوئی موقعہ نہیں چھوڑتیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے بھاجپا اور ہندوتو کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی طرف سے متنازعہ بیانات کی دوڑ سی لگ گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی دیش کی ترقی کے لئے قوموں کو جوڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہیں بھاجپا ایم پی سچیدا نند ہری ساکشی جیسے بڑبولے لیڈر الٹے سیدھے بیان دے کر وزیر اعظم کی مشکلیں بڑھا رہے ہیں۔ متنازعہ بیانات کو لیکر اکثر سرخیوں میں رہنے والے ساکشی مہاراج نے ایتوار کو کہا کہ ہم چار بچے پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے لیکن چار بیویاں اور 40 بچے پیدا کرنے والوں سے آگ کیوں نہیں لگتی؟ آبادی میں اضافہ دیش کو کھانے کے لئے منہ کھولے کھڑا ہے۔اس لئے اب دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کو لیکر بھی ایک قانون نافذ ہونا چاہئے اور جو اس کی تعمیل نہ کرے اسے ووٹ کے حق سے محروم کردینا چاہئے۔ یہ کہنا کے سارے مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں اور ان کے درجنوں بچے ہوتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ زیادہ تر مسلمان ایک ہی شادی کرتے ہیں اور اپنی اولادوں کی اچھی پرورش کی خاطر ایک دو بچے ہی پیدا کرتے ہیں۔ ہاں دیہاتی علاقوں میں انپڑھ آج بھی کنبے بڑھاتے ہیں اور ان کو محدود کرنے کی ضرورت ہے لیکن زور زبردستی سے نہیں۔ تعلیم یافتہ کرکے انہیں چھوٹے خاندانوں کے نفع نقصان کو سمجھاکر کرنا چاہئے۔تلخ نکتہ چینی کے بعد شیو سینا سنجے راوت کے بیان پلہ جھاڑتی دکھائی دے رہی ہے تو خود راوت بھی اب صفائی دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا اور کچھ دانشور ایک خاص طبقے کو ذرا بھی چبھنے والے بیان آنے پر ہنگامہ مچاتے ہیں لیکن اکثریتی مخالف یا ملک دشمن بیان آنے پر ان کے منہ پر تالا لگ جاتا ہے۔ اس کا تازہ ثبوت کانگریس کے ایک لیڈر نے انڈین مجاہدین کو دہشت گرد گروپ ماننے سے انکار کردیا لیکن اس بیان پر نہ تو کانگریس اور نہ میڈیا اور نہ ہی دانشور طبقے میں کوئی ہلچل دکھائی دی۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق ہے لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا جسے ووٹنگ رائٹ پر بے تکے بیان دے رہے ہیں وہ دیش کے شہریوں کا بنیادی آئینی حق ہے جس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!