کوئلہ الاٹمنٹ فائلوں کو کیا آسمان کھاگیا یا زمین نگل گئی؟

اب یہ صاف ہوتا جارہا ہے کرپشن کے خلاف سرکار ٹال مٹول اور مایوس کن رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ کوئلہ الاٹمنٹ کی فائلوں کو زمین کھا گئی یا آسمان؟اس سوال کا تشفی بخش جواب دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ وہ فائلوں کے رکھوالے نہیں ہیں، یہ ظاہرکرتا ہے کہ اس یوپی اے سرکار کے پاس چھپانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے صحیح کہا کہ معاملے میں فوراً ایک ایف آئی آر درج ہونی چاہئے کیونکہ یہ چوری کا معاملہ ہے نہ کے غائب ہونے کا۔ ایف آئی آر درج نہ کرنے کا مطلب صاف ہے کہ سرکار کچھ چھپانا چاہتی ہے۔ کوئلہ الاٹمنٹ میں بے ضابطگی کا سلسلہ لمبا ہے۔ یہ 1.86 لاکھ کروڑ کا ہے۔ اس معاملے سے جڑی فائلیں غائب ہوئی ہیں۔ اسکی خبر سب سے پہلے مرکزی وزیر کوئلہ سری پرکاش جیسوال نے دی۔ بعد میں وزیر موصوف نے اپنا بیان بدل دیا اور کہا کہ زیادہ تر فائلیں مل گئی ہیں کچھ تلاش کی جارہی ہیں۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی نیتا سیتا رام یچوری نے سوال کیا فائلیں گم ہونے کے بعد اب تک ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی گئی۔ سی اے جی نے فائلوں کی جانچ کی تھی اس لئے اس کے پاس دستاویزوں کی کاپیاں ہوسکتی ہیں۔ سی اے جی سے دستاویز کیوں نہیں مانگے گئے؟ وہ دستاویز سی اے جی سے لیکر ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے اور قصورواروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی ہو۔ اس کے لئے ایک کمیٹی قائم کر جانچ شروع کی جانی چاہئے۔ جو کچھ ہوا ہے اس سے پارلیمانی کارروائی پر بھی شبہ پیدا ہوتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 29 اگست2013ء کو کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے کی جانچ کررہی سی بی آئی کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ دو ہفتے کے اندر سبھی غائب ہوئی فائلیں اور دستاویز و دیگر کاغذات کی فہرست عدالت کو مہیا کرائے۔ سی بی آئی کوئلہ وزارت کو ان دستاویزوں کی ایک فہرست سونپی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے اتنا کچھ ہونے کے باوجود ابھی منموہن سرکار یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ فائلیں غائب ہوچکی ہیں یا چوری ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم خود یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ماننا جلد بازی ہوگی کے فائلیں غائب ہیں۔ اگر فائلیں غائب نہیں ہیں تو کہاں ہیں؟ بار بار مانگنے پر سی بی آئی کو کیوں نہیں دی جارہی ہیں؟ صرف یہ کہنے سے کام نہیں چل سکتا کے سرکار کچھ نہیں چھپا رہی ہے۔ قریب 250 دستاویزوں والی فائلوں کا نہ ملنا ایک طرح سے ثبوت ضائع کرنے جیسا جرم ہے۔ سرکاری فائلوں کا ریکارڈ رکھنے کیلئے ایک الگ ٹریکنگ رجسٹر ہوتا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فائلوں کی حرکت کہاں کیسے ہوئی۔ اس آمدو رفت، ٹریکنگ رجسٹر سے پتہ چل سکتا ہے آخری بار یہ فائل کس کے ڈیکس پر گئی تھی۔ سرکاری ریکاڈر سے ایک اہم معاملے سے جڑے دستاویزوں کا غائب ہونا ہماری سرکار کے انتظامی نظام پر سوال کھڑے کرتا ہے۔کسی گہری سازش کابھی یہ اشارہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے جن کمپنیوں یا شخص کی فائلیں غائب ہیں ان سے بھی سی بی آئی پوچھ تاچھ کرے۔ وزارت سے کون کون سا افسر شامل ہوسکتا ہے اس سے پوچھا جائے۔ ہاں اگر سرکار کی نیت ہی ان غائب یا چوری شدہ فائلوں کو ڈھونڈنے کی نہیں ہے اور یہ پتہ کرنے کی کہ قصوروار کون ہے اسے کیا فائدہ تھا انہیں غائب کرنے میں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!