یوپی کی سپا سرکار نہ صرف فسادروکنے میں ناکام رہی بلکہ اسے بڑھایا!
27 اگست کومظفر نگر کے کوال گاؤں میں ایک چھوٹے سے واقعہ سے اتنی خطرناک شکل اختیارکرلی کے فساد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ فساد اور اس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد اب مظفر نگر سے بھڑکتے ہوئے آس پاس کے علاقوں میں پھیل گیا ہے۔ اب تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق36 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ انتظامیہ نے 200 فسادیوں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ سپا حکومت نے مرکزی وزیر اجیت سنگھ اور بھاجپا لیڈر روی شنکر پرساد سمیت دیگر ممبران پارلیمنٹ کومتاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ فساد کیوں نہیں رک رکا ہے، اس کے پیچھے کون ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ پورے معاملے میں اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی کہاں کھڑی ہے؟ اترپردیش میں اب تک تین بار فوج بلائی گئی ہے۔ فساد پر قابو پانے کے لئے اور تین بار ریاست میں سماجوادی پارٹی کی سرکار رہی ہے جس کی باگ ڈور درپردہ طور پر ملائم سنگھ یادو کے ہاتھ میں ہی رہی ہے۔ اکھلیش سرکار بننے کے بعد تو جیسے فسادات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ اب تک 104 فرقہ وارانہ دنگے بھڑکے اور35 خونی جھڑپیں ہوئیں۔ خود وزیر اعلی نے مارچ میں بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں 27 دنگوں کی تحریری جانکاری دی تھی۔ یہ دنگے15 مارچ 2012ء سے 31 دسمبر2012ء کے درمیان ہوئے تھے۔ ان میں18 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ اترپردیش میں مظفر نگر میں حالات اس طرح سے بگڑنا افسوسناک ہے اتنا ہی تشویش کا باعث بھی ہے۔انتظامیہ محاذ پر اکھلیش سرکار اور ان کے افسر بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بات چھوٹے سے واقعہ سے شروع ہوئی۔ 27 اگست کوکوال گاؤں میں ایک فرقے کے لڑکے نے دوسرے فرقے کی لڑکی سے چھیڑچھاڑ کی ۔ یہ لڑکی پڑوسی گاؤں ملک پور کی تھی۔ لڑکی کے دو بھائیوں گورو ۔سچن نے اس لڑکے کا نام شاہنواز بتایا تھا۔ اس کے رد عمل کے نتیجے میں اس کو قتل کردیا۔ جب شاہنواز کے رشتے داروں کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے دونوں بھائیوں کو بے رحمی سے مار ڈالا۔ بس یہیں سے شروعات ہو گئی۔ اگر مقامی انتظامیہ اور پولیس اسی وقت قانونی کارروائی کرتے اور میل ملاپ کی کوشش کرتے تو معاملہ شاید رک جاتا لیکن پولیس کیا کرتی ہے وہ راہل اور گورو کے خاندان والوں پر ایف آئی آر درج کرلیتی ہے اور شاہنواز کے رشتے داروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ دونوں فریقین کے خلاف مقدمہ درج ہوتا۔ اس سے مقامی لوگوں اور فرقہ خاص کو یہ لگا کے سرکار جانبداری برت رہی ہے اور انہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ اس لئے 27 اگست کو ایک مہا پنچایت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لیکن 30 اگست کو دوسرے فرقے کے لوگوں نے ہی جوابی کارروائی شروع کردی۔ سوال اٹھتا ہے کہ پہلے تو دونوں فریقین کے خلاف یکساں کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ پھر 30 اگست کو ہوئے حملوں کو رکا نہیں گیا پھر31 اگست کو مہا پنچایت کی اجازت دے دی؟ کسی بھی مرحلے پر دونوں فرقوں کو بٹھا کر صلح کروانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ صوبے کے گورنر بی ۔ایل جوشی نے ریاست کے بگڑتے حالات کی رپورٹ مرکزی سرکار کو بھیج دیا ہے۔گورنر نے مانا ماضی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے لئے ریاستی سرکار کا رویہ ذمہ دار ہے اور حالات اس کے قابو سے باہر دکھائی دے رہے ہیں۔ 27 اگست کو ایک لڑکے سے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں مظفر نگر کے کوال میں تین لوگوں کے قتل کے قریب 11 دن بعد وہاں جس قدر حالات بگڑے اور کئی لوگوں کی موت ہوئی۔ راج بھون نے اس کو بیحد سنجیدگی سے لیا ہے۔ گورنر کا یہ بھی ماننا ہے کہ اکھلیش سرکار نے بروقت سخت قدم نہیں اٹھائے ساتھ ہی انتظامیہ کا کام کاج بھی ایسا ہی رہا جس سے حالات بگڑے۔ ووٹ بینک کی سیاست سے یہ یوپی کی سپا اتنی ابن الوقت ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اور حکام کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ افسروں سے صاف کہا گیا ہے کہ ایک فرقہ خاص کے خلاف نرم رویہ اپنائیں۔
سرکاری پالیسی کے حساب سے پولیس بھی جانبداری برت رہی ہے۔ ایک فرقہ خاص کے خلاف کارروائی کرنے سے بچتی ہے۔ جو لوگ گرفتار کئے جارہے ہیں ان میں زیادہ تر دوسرے فرقہ کے لوگ ہیں اور سماجوادی پارٹی قانون کی حکومت کام کرنے کے بجائے اپنے حمایتی فرقے کی حکمرانی قائم کرنے میں لگی ہے۔ جب خود سرکار کی فرقہ خاص کی طرفداری کرے تو ایسی سرکار سیکولر تو قطعی نہیں مانی جاسکتی۔ یہ فساد اچانک نہیں ہوا تیاری کے ساتھ ہوا۔ فسادیوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں اور تیاری اتنی زبردست ہے کہ گاؤں میں فوج کے سامنے ہی بندوق سے فائرننگ کی گئی ۔ ایتوار کی صبح گاؤں کٹوا میں اگر فوج نہ پہنچتی تو مرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی۔ یہاں آپسی فائرننگ میں چار لوگوں کی جان چلی گئی۔ ایتوار کی صبح جس وقت ضلع کے ضلع مجسٹریٹ اور ایس ایس پی فوج کے افسروں کے ساتھ میٹنگ کررہے تھے تب تک شاہ پور کا کٹوا گاؤں سلگ گیا تھا۔ یہاں کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔ چار لوگوں کی موت ہوچکی تھی۔ بتایا جاتا ہے وارننگ کے بعد فسادیوں میں ایک نے کاربائن سے فائرننگ کی۔ فوج نے جوابی فائرننگ کی اور فسادیوں کو بھگایا۔ یہ اسلحہ کہاں سے کب آیا؟ کیا مقامی انتظامیہ سو رہی تھی؟ اگر میڈیا رپورٹ کو صحیح مانا جائے تو ایک مذہبی مقام سے ہتھیار، گولہ بارود نکلا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان فساد کے پیچھے سیاست ہے۔ سپا سرکار کے سپر چیف منسٹر کی یہ چال ہے۔ مغربی یوپی اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوگ دل کا گڑھ مانا جاتا ہے یہاں کے مسلمان اور جاٹھ دونوں ہی اجیت کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ ممکن ہے ان دونوں فرقوں کو آپس میں لڑواکر اجیت سنگھ کا دبدبہ توڑنے کا پلان ہو؟ بھلے ہی ہم دگوجے بھائی سے متفق ہیں کہ اس عہد میں سپا کا ریکارڈ کافی خراب ہے ۔ وہ فرقہ وارانہ طاقتوں کو لگام نہیں لگا پارہی ہے۔ بسپا سرکار تو سچی تھی ۔ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ جب2002ء کے گجرات دنگوں میں آج تک وزیر اعلی نریندر مودی کو دن رات کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے تو یہ خودساختہ سیکولرسٹ اسی پیمانے پر اکھلیش یادو اور ان کی سماجوادی سرکار کو کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کرتے؟ یہ ہے ایسا صاف معاملہ جب ریاستی سرکار میں جانتے ہوئے سمجھتے ہوئے کارروائی اس لئے نہیں کی تاکہ فساد بھڑکے لیکن اب ہماری بلاتاخیریہ کوشش ہونی چاہئے کے سب مل کر پوجا کریں ،دعا کریں کے تشدد کا یہ دور تھمے۔ امن شانتی قائم ہو۔ پوسٹ مارٹم کے لئے بہت وقت ہے۔مندریوں، مسجدوں ، گورودواروں، گرجا گھروں، دھرم گوروؤں اور مقامی لیڈروں کو سب مل کر پہلا کام تشدد کو رکوائیں اور امن چین قائم کرنا چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں