خصوصی ریاست کا درجہ کیوں چاہتے ہیں؟

18 ویں لوک سبھا کے چناﺅ کے بعد اب بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے اتحادی سرکاری بن گئی ہے لوک سبھا چناﺅ میں بھاجپا نے 240 سیٹیں جیتی ہیں لیکن اپنے بل پر اکثریت نہ پانے پر اسے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کی مدد سے سرکار بنالی۔آندھرا پردیش میں لوک سبھا کے چناﺅ کے ساتھ اسمبلی کےلئے بھی چناﺅ ہوئے چندر بابو نائڈو کی ٹی ڈی پی نے ریاست میں 135سیٹیں جیتیں ہیں اب یہاں چندر بابو نائیڈو ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ بنے گے آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کی مانگ ایک دھائی سے زیادہ عرسے کی جا رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کانگریس کے چناﺅ منشور میں بھی آندھرا کو خصوصی درجہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اب جب بھاجپا کو نائیڈو اور تیلگو دیشم پارٹی کی ضرورت ہے تو امید ہے کے اس خصوصی درجہ دینے کی چندر بابو نائیڈو مانگ کریں گے ۔اس کے ساتھ ہی نتیش کمار بھی ریاست کو خصوصی درجہ دئے جانے کی مانگ کریں گے مانا جا رہا ہے کے نتیش کمار اس مانگ کو بھاجپا کے سامنے رکھ سکتیں ہیں ایسے میں سوال پوچھا جا سکتا ہے کے کسی ریاست کو دیا جانے والا اسپیشل اسٹیٹس آخر ہے کیا اور اس سے ریاست کا درجہ پانے والے راجیہ کا کیا حالات بدل جاتے ہیں ؟بھارت کے آئین میں ایسے اسپیشل اسٹیٹس کا کوئی دفعہ نہیں ہے بھارت میں 1969میں گاڈگل کمیٹی کی سفارش کے تحت اسپیشل ریاست کا درجہ کا تصور سامنے آیا اسی برس آسام ،ناگالینڈ ،جموں کشمیرکو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا یہ درجہ پانے والی ریاست کے لئے ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اہم ترین چھوٹ دئے جانے کی سہولت رکھی گئی تھی۔تاکہ وہاں بڑی تعداد میں کمپنیاں اور صنعتیں قائم ہو سکیں اسپیشل اسٹیٹس سماجی اور اقتصادی ،جگرافیائی مشکلات والی ریاستوں کو ترقی میں مدد کےلئے دیا جاتا ہے اس کے لئے الگ الگ پیمانے مقرر کئے گئے حاہی میں بھارت نے 11 ریاستوں کو اسپیشل اسٹیٹس کا درجہ دیا گیا ان میں آسام،ناگالینڈ،منی پور،میگھالیہ،سکم تریپورہ،اروناچل پردیش،اتراکھنڈاور تلنگانہ شامل ہیں۔دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ان ریاستوں کو مرکز سے ملنے والی مدد کے علاوہ کئی اور فائدہ ملتے ہیں اور نوے فیصد رقم ملتی ہے ۔جبکہ دیگر ریاستوں کو یہ اندازاً 60 سے 70 فیصدی ہے اور ان ریاستوں کو ٹیکس اور گروتھ ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں رعاتیں ملتی ہیں ۔اور ان ریاستوں کو جی ڈی پی بجٹ کا 30 فیصد حصہ ملتا ہے ۔اہم ترین بات یہ ہے اگر ایسی ریاستوں کو ملنے والی رقم اگر بچ جاتی ہے تو اس کا استعمال اگلے مالی برس میں کیا جا سکتا ہے۔جس سے ریاست کی معیشت کو فائدہ ہوگا ۔ایک بار پھر خصوصی درجہ کا پٹارہ کھل گیا ہے۔تو پتہ نہیں یہ کیسے رکے گا۔(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!