مودی سرکار کا ایک برس!کارنامے اور چیلنج
دھوم دھام سے آئی مودی سرکار نے ایک سال پورا کرلیا ہے۔ ایک برس کے کارنامے بتانے کیلئے بھاجپا 26 مئی سے31 مئی تک دیش بھر میں ریلیاں منعقد کررہی ہے۔کچھ بڑے لیڈروں کے علاوہ بی جے پی ایم پی بھی پانچ ہزار ریلیاں کریں گے۔ جن کلیان فیسٹول کے تحت دیش بھر میں 200 ریلیاں ہوں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان سبھی پروگراموں کے ذریعے بھاجپا کے نیتا و وزیر اعظم نریندر مودی عام آدمی کو یہ یقین دلا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں کہ مودی سرکار نے ایک برس میں حقیقت میں تمام کام کردکھائے ہیں؟ یہ سوال اس لئے کیونکہ عام جنتا نے مودی سرکار سے ضرورت سے زیادہ امیدیں لگا رکھی تھیں اور کیونکہ وہ سبھی پوری نہیں ہوئیں اس لئے ایک بے چینی سی بھی محسوس کی جارہی ہے۔ جن سنگ کے آئیڈیا لوجسٹ دین دیال اپادھیائے کے آبائی وطن متھرا میں ہوئی ریلی میں خود کو دیش کا پرنسپل ٹرسٹی اور سنتری بتا کر یہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مودی سرکار کے آنے سے حکومت کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔
مودی سرکار کے ایک سال کے عہد میں ایک جائزہ سامنے آیا ہے۔’’اسٹاوانی‘‘کے ذریعے کئے گئے اس سروے کے مطابق قریب تین چوتھائی لوگ مودی سرکار کے کام کاج سے مطمئن ہیں۔ وہیں میٹرو شہروں کے 82 فیصد اور غیر میٹرو شہروں کے 74 فیصدی لوگوں کا خیال ہے کہ اقتصادی ترقی کے محاذ پر سرکار صحیح سمت میں بڑھ رہی ہے۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کا کوئی ہائی پروفائل معاملہ سامنے نہ آنے کے سبب بھی لوگوں کے دل میں مودی حکومت کے تئیں مثبت تاثر قائم ہوا ہے۔ وہیں صفائی کے مسئلے پر میٹرو شہروں کے 86 فیصد لوگوں نے سرکار کو صد فیصد نمبر دئے ہیں۔ امیدوں کے برعکس مودی نے فوج کے لئے ایک رینک ایک پنشن یا پھر کسانوں سے متعلق بڑے اعلانات تو نہیں کئے تھے لیکن یہ جتانے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت غریبوں اور ترقی کے فائدوں سے محروموں کے لئے فکر مند ہے۔ امکان ایسا اس لئے ہے کیونکہ زمین ایکوائر قانون ترمیم کو لیکر پارلیمنٹ اور اس کے باہر سرکار اور اپوزیشن کے درمیان جاری ٹکراؤ سے سرکار کی ساکھ پر اثر پڑا ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مودی سرکار نے رسوئی گیس کیلئے نقد سبسڈی ، جن دھن یوجنا، سماجی پنشن سے لیکر آدھار کارڈ اور چھوٹے کاروباریوں کے لئے کرنسی بینک کا قیام جیسی پہل کی ہیں جو اسے سیدھے نچلے طبقے سے جوڑتی ہیں۔ حالانکہ مودی سرکار کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہی ہے کہ اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا ہے اور جس وجہ سے یوپی اے اور خاص طور پر کانگریس کی اتنی درگتی ہوگئی کہ اسے منظور شدہ اپوزیشن پارٹی کے درجے لائق سیٹیں بھی نہیں مل پائیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی لال فیتاشاہی کو کم کرنے اور گڈ گورننس لانے کے وعدے کے ساتھ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنی چناؤ مہم کے دوران ترقی میں آنے والی انتظامی اڑچنوں کو دور کرنے کے وعدے کئے تھے۔ ایسے میں دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس دوران ان میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ ایک نظر ان وعدوں پر ڈالتے ہیں جو ایک برس میں مودی نے پورے کئے ہیں۔
انتظامیہ میں شفافیت لانے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت نے ریاستی سرکاروں کے وسائل کا الاٹمنٹ بڑھا دیا ہے۔ اب ریاستی حکومتیں فیصلہ کرسکتی ہیں کہ وہ ترقی کے جس پروجیکٹ پر جتنا چاہے خرچ کرسکتی ہیں۔ پلاننگ کمیشن کی جگہ پر نیتی آیوگ بے شک بن گیا ہے لیکن اس کا رول اب تک واضح نہیں ہوا ہے۔ پہلے کوئی صنعت لگانے میں کئی فارم بھرنے پڑتے تھے اب صنعتی پالیسی اور پروسسنگ محکمے نے ان سب کو جوڑ کر ایک فارم بنا دیا ہے ،وہ بھی ’’ای ۔فارم‘‘ کی شکل میں۔ ایسے بہت سے قانون تھے جو بوسیدہ ہوچکے تھے اور جن سے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوا کرتا تھا۔ انہیں بدلنے یا ہٹانے کی ضرورت تھی۔ مودی سرکار نے ایسے قوانین کی پہچان کی ہے تاکہ انہیں ہٹایا جاسکے۔ ایسے بھی کئی وعدے ہیں جو اب تک پورے نہیں ہوسکے۔اقتدار کی لا مرکزیت کا وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک لمبا کام ہے۔
ریاستی حکمتوں کو زیادہ اختیارات دینے کے لئے آئین میں کافی ترمیم کرنی ہوگی۔ مودی ’ون مین بینڈ ‘ ہیں۔ اقتدار کی لامرکزیت کھوتی جارہی ہے اور یہ کافی حد تک صحیح ہے ۔ اس سے ایک فائدہ ضرور ہے کہ جس کام پر توجہ دینی ہو جلد ہوجاتا ہے لیکن نقصان یہ ہے کئی لوگ طاقتور محسوس نہیں کرتے۔اس کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی ریاستی سرکاریں مرکز سے غیر متفق ہیں اس کو دور کرنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مالی سیکٹر میں کچھ اصلاحات ہونی تھیں جو نہیں ہوپائیں۔
لیبر اور متعلقہ سیکٹر میں اصلاحات ہونا تھا جو اب تک نہیں ہوسکا ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سرکار کے اس پورے ایک برس کا مرکز خود وزیر اعظم نریندر مودی ہی رہے ہیں جو ایک مضبوط لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ لہٰذا سرکار کے کام کاج میں چاہے وہ ’’سوچھتاابھیان‘‘ ہو یا پھر ’’میک ان انڈیا‘‘ ان پر سیدھے ان کی چھاپ دکھائی پڑتی ہے۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سرکار کے سامنے چیلنج بھی کم نہیں ہیں۔ مثلاً جہاں دیش کے 60 کروڑ لوگوں کیلئے ٹوائلٹ کا انتظام اب بھی بڑی چنوتی ہے وہیں 18 ملکوں کے دورے کر عالمی لیڈر کی شکل میں سامنے آنے کے باوجود پی ایم کی پہل سرمایہ کاروں کو خاص بھارت کی طرف راغب نہیں کرسکی۔ اچھے دن کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے مودی نے کہا کہ عام لوگوں کے لئے برے دن گئے اور برا کرنے والوں کے اور برے دن آئیں گے۔
انہیں دھیان رکھنا ہوگا کہ پچھلی سرکار کی ناکامیوں پر ایک حد تک ہی بات کی جاسکتی ہے۔ آخر جنتا ان کی سرکار کے کام کاج کو ہی کسوٹی پر پرکھے گی۔ مودی سرکار کے سامنے ایک بڑی چنوتی ان تمام اسکیموں کے نتیجے عام آدمی تک پہنچانے کی بھی ہے جو پچھلے سال میں شروع کی گئی ہیں۔بلا شبہ مودی سرکار نے کئی ایسے منصوبے شروع کئے ہیں جو عام جنتا کے مفادات کی تکمیل کرنے والے ہیں لیکن ان کے نتیجے آنے باقی ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں