نوٹ بندی پر سپریم کورٹ کی مہر !

دیش کی سپریم کورٹ نے سال 2016میں ہوئی نوٹ بندی کے خلاف دائر عرضیوںپر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت میں اس معاملے میں مرکزی سرکار کے فیصلے سے جڑے الگ الگ پہلوو¿ں کو چنوتی دی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے جسٹس این نذیر کی سربرراہی والی پانچ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا ہے ۔ حالانکہ جسٹس ناگ رتنا نے فیصلے میں اسے غیر قانونی بتایا ہے ۔ جسٹس این نذیر کی بنچ نے کن وجوہات سے عرضی گزاروں کی دلیلوں کو خارج کیا اور کس بنیاد پر نوٹ بندی کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا یہ جاننا ضروری ہے ۔ لائیو لاءمیں شائع خبر کے مطابق جسٹس گوئی نے کہا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا قانو ن کی دفعہ 26/2میں دئے گئے اختیارات کی بنیاد پر کسی بینک نوٹس سیریز کو پابندی لگایا یا بند کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس دفعہ میں استعمال کئے گئے لفظ کسی طرح سے منفی ذہنیت کے ساتھ نہیں دیکھا جاسکتا ۔ انہوںنے کہا کہ اس دفعہ میں جس کسی لفظ کا استعمال کیا گیا ہے اس کی پابندی تشریح نہیں کی جاسکتی ۔ جدید چلن اور موجودہ تشریح کرنا ہے ایسے تشریح سے بچنا چاہئے ۔جس سے بد مزگی پیدا ہو اور تشریح کے دوران قانون کے مقاصد کو ذہن میں رکھا جانا چاہئے اس کے ساتھ ہی انہوںنے کہ مرکزی سرکار کو سینٹرل بورڈ کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں ان ولٹ سے فوگاڈ ہے ۔ اقتصادی پالیسی کے مسئلے پر بے حد تحمل برتنے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ سبھی نوٹوںپر پابندی لگایا جانا بینک کی طرف سے کسی بینک نوٹ کی کسی سیریز کو چلن سے باہر کئے جانے سے زیادہ سنگین ہے ۔ایسے میں اس معاملے میں سرکار کو قانون پاس کرانا چاہئے تھا ۔جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ جب نوٹ بندی کی تجویز مرکزی سرکار کی طرف سے آتی ہے تو آر بی آئی کی کی دفعہ (22)کے تحت نہیں آتی ۔اس معاملے میں قانون پاس کیا جانا چاہئے تھا۔ اگر راز رکھنے کی ضرورت ہوتی تو اس میں آرڈیننس لانے کا راستہ اپنایا جا سکتا تھا۔وہیں جسٹس گوئی نے کہا کہ اس قدم کیلئے جن مقاصد کو ذمہ دار بتایا گیا تھا وہ صحیح مقاصد تھے ۔مرکزی سرکار نے سال2016میں 8نومبر کی رات اچانک 500اور 1000روپے کے نوٹ کو بند کردیا تھا۔ اس کے بعد کئی ہفتوں تک دیش بھر میں بینکوں اور ای ٹی ایم کے سامنے پرانے نوٹ بدل کر نئے نوٹ حاصل کرنے والوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیںتھیں ۔ اس کے بعد کئی فریقین نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف عرضیاں دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے 58ایسے عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ۔ سماعت سے پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر یہ اشو واجب ہے تو عدالت کا وقت برباد کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔کیا ہمیں وقت گرزنے کے بعد ہمیں اس سطح پر معاملہ اٹھانا چاہئے تھا ۔ اس کے بعد عرضی گزاروں کی طرف سے کہا گیا تھا ۔ سوال اس بات کا ہے کہ کیا مستقبل میں اس قانون اس طرح استعمال کیا جا سکتاہے؟آر بی آئی کے وکیل جیدیپ گپتا نے کہا کہ عرضی گزار اس عدالت سے مانگ کر رہے ہیں کہ یہ مرکزی سرکار کی اس پاور کو چھین لیں جس کے ذریعے وہ آر بی آئی کی تجویز پر افراط زر جیسے موقعوں پر چلن میں موجودہ پوری کرنسی واپس لے سکتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟