عورتوں کو ڈرائیوننگ کا حق دینے والا دنیا کا پہلا ملک سعودی عرب
سعودی عرب میں سنیچر ۔ایتوار رات کونظارہ بالکل الگ ہی تھا۔ بڑی تعداد میں عورتیں سڑکوں پر جشن منا رہی تھیں۔ رات12 بجتے ہی عورتیں اپنی اپنی گاڑیاں لے کر سڑکوں پر نکل پڑیں۔ راستے میں لوگ انہیں نیک خواہشات پیش کررہے تھے۔ چیک پوائٹ پر پولیس والوں نے انہیں گلاب کے پھول دیکر ان کا خیر مقدم کیا۔ یہ وہی پولیس والے تھے جو اس سے پہلے انہیں گاڑی چلانے پر جیل بھیج دیا کرتے تھے۔ ان پر آتنک وادیوں سے جڑی دفعات لگاتے تھے۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب کا نام 24 جون کو تاریخ میں درج ہوگیا کیونکہ اس دن عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی۔ پوری دنیا میں صرف سعودی عرب میں عورتوں پر اس طرح کی پابندی تھی۔ یہ آزادی پانے کے لئے انہیں 28 سال تک جدوجہد کرنی پڑی۔ سعودی عرب میں پہلی بار کسی خاتون کو ڈرائیوننگ لائسنس جاری کیا گیا ہے۔ یہاں کہ 32 سالہ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان دیش کو جدید دور میں لے جانے کے لئے ویژن2030 کے تحت خواتین کو ہر محاذ پر آگے لانے کی پہل کررہے ہیں۔ عورتوں کو ڈرائیوننگ لائسنس جاری کرنا اسی کڑی کا حصہ ہے۔ اسے دوئم درجے کی زندگی جی رہی وہاں کی عورتوں کے لئے اہم مانا جارہا ہے۔ حالانکہ ابھی بھی کئی ایسے سیکٹر ہیں جہاں عورتوں کو آزادی ملنا باقی ہے۔ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان دیش میں کئی تبدیلیاں لارہے ہیں۔ پچھلے سال وہاں تفریح کے لئے موسیقی اور رقص کا فیسٹیول انعقاد کیا گیا۔ 25 سال بعد اپریل میں سعودی عرب میں فلم تھیٹر کھلا۔ جلد ہی ویزا جاری کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ دراصل ڈرائیوننگ کرنے پر پابندی کے سبب عورتیں اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے سے لیکر بازار اور دوستوں سے ملنے جانے تک کے لئے اپنے شوہر، بھائی یا ڈرائیور پر منحصر تھیں۔ڈرائیور رکھنا سعودی عرب میں ویسے بھی آسان نہیں ہے۔ ایتوار کو سعودی عرب کی عورتیں بھی دنیا بھر کی خواتین کی طرح اسٹیارنگ ول کے پیچھے بیٹھ کر کہیں بھی آنے جانے کے لئے آزاد ہوگئی ہیں۔ شہزادہ ولی عہد کے ویژن2030 کے پیش نظر دیش میں عورتوں کو کئی اور سیکٹروں میں بھی حقوق دئے جارہے ہیں۔ ڈرائیوننگ کا حق بھی اسے کا حصہ ہے۔ حا ل ہی میں یہاں عورتوں کو کاروبار شروع کرنے کا بھی حق ملنے کے ساتھ ہی اسٹیڈیم میں بھی جانے پر پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ کٹر پسند تنظیموں کا کہنا تھا کہ عورتوں کو ڈرائیوننگ کی چھوٹ دینے سے گناہوں کو بڑھاوا ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے عورتوں پر اذیتیں بڑھیں گی اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے سعودی حکومت نے جنسی استحصال معاملو ں میں پانچ سال کی قید کا قانون بھی پاس کردیا ہے۔ بیشک سعودی خواتین کو کار چلانے کی آزادی تو مل گئی ہے لیکن اب بھی ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی کئی ایسی مشکلات ہیں جن پر عبور پانے کے لئے نئے سرے سے میدان میں اترنا ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں