جناح کی تصویرپر جنگ کا میدان بنی مسلم یونیورسٹی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر لگانے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ تصویر 1938 سے وہاں لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ایم پی ستیش گوتم اور مہیش گیری نے جناح کی تصویر وہاں ہونے کی مذمت کی ہے۔ بدھ کو کچھ لوگوں نے یونیورسٹی کے باہر نازیب نعرہ بازی کی۔ طلبا نے ان باہری عناصر کی گرفتاری کی مان کی۔ تنازعہ اتنا کھڑا ہوگیا کہ پولیس کوکیمپس میں آنسو گیس کے گولہ چھوڑنے پڑے اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس میں اے ایم یو اسٹوڈینٹ یونین کے صدر سمیت درجن بھر طالبعلم زخمی ہوگئے۔ ایس پی سٹی، سی او سمیت آدھا درجن پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ محمد علی جناح مسلمانوں کے لئے پاکستان کی مانگ کے پیروکار رہے ہیں۔ ان کی پہل پر بھارت کی تقسیم ہوکر ایک نیا دیش پاکستان بنا اور وہ وہاں کے قائد اعظم کہلائے۔ اس طرح جناح بھارت کے لئے کھلنائک بن گئے۔ تبھی سے عام ہندوستانی میں ان کا نام بٹوارے یا کہئے کہ دیش سے بغاوت کا محاورہ وابستہ ہوگیا لیکن اتنے برسوں سے ٹنگی تصویر پر اب واویلا کیوں؟ پچھلے80 سال پہلے سے یہ تصویر ٹنگی ہوئی ہے۔ تصویر کلیان سنگھ جب وزیر اعلی تھے تب بھی لگی ہوئی تھی، لال کرشن اڈوانی جب دیش کے نائب وزیر اعظم تھے تو وہ جناح کے مزار پر حاضری دے کر آئے تھے۔ اسی جناح کو اڈوانی نے سیکولر کہا، جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں جناح کی تعریف کی۔ ایک پرائیویٹ چینل سے بات کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی نے کہا کہ جناح نے دیش کا بٹوارہ کرایا تھا۔ بھارت میں جناح کو سمانت نہیں کیا جاسکتا۔ یوگی نے کہا کہ انہوں نے اے ایم یو معاملہ میں جانچ کے احکامات دئے ہیں۔ جلد ہی انہیں اس کی رپورٹ مل جائے گی۔ رپورٹ ملتے ہی تصویر لگانے والوں پر ایکشن لیا جائے گا۔ اس سے پہلے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ نے بھی کہا تھا کہ جناح کی وجہ سے دیش کی تقسیم ہوئی جس کا درد آج ہر ہندوستانی جھیل رہا ہے۔ جناح دیش کا دشمن تھا اور اس کے لئے دیش کے لوگوں کے دلوں میں نہ کوئی جگہ تھی نہ ہے اور نہ رہے گی۔ جناح کی جس تصویر کو سیاسی اشو بنایا جارہا ہے وہ اے ایم یو اسٹوڈینٹ یونین کے دفتر میں 1938 سے لگی ہوئی ہے۔ وہاں گاندھی کا فوٹو بھی لگا ہے۔ تصویروں میں گنگا جمنی کلچر اور سیکولر ازم کا پورا سمندر بسایا گیا ہے۔ اے ایم یو سینٹرل یونیورسٹی ہے اور اس کا پورا طریقہ نظام ہندوستانی آئین کے تحت چلتا ہے۔ جناح کی وہاں لگی تصویر کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ وہاں پاکستان کی سرکار کی حکومت چلتی ہے یا اس کے طلبا جناح پرست ہوگئے ہیں، ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری بات تاریخ کے جناح اہم کردار ہیں چاہے ان کی تنقید نفرت کی حد تک کی جائے وہ رہیں گے ہندوستانی تاریخ کا زندہ ثبوت، ویسے ہی جیسے ہندو بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، پاکستان کی وراثتوں کی دھڑکن میں ہے۔ حال ہی میں میں نے پاکستان ٹی وی پر بھگت سنگھ پر ایک پروگرام دیکھا تھا اس میں بھگت سنگھ کی سوانح حیات اور قربانیاں دکھائی گئی تھیں۔ پاکستان میں تو کسی نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں شامل ہے اس کا اس طرح سے نام خراب کرنا مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہوکہ اسے سیاسی جنگ کا حصہ نہ بنایا جائے۔معاملہ کو پرامن طریقے سے نمٹایا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!