مفتی یہ دکھانے کی کوشش میں ہیں کہ ’’میں دہلی کا ایجنٹ نہیں‘‘
جموں و کشمیر کے وزیر اعلی اور پی ڈی پی کے صدر مفتی محمد سعید کے عہدہ سنبھالتے ہی متنازعہ بیانات کا کیا مطلب نکالا جائے؟ پاکستان اور حریت کانفرنس کو جموں و کشمیر میں بنا رکاوٹ کے چناؤ کا سہرہ دینا، افضل گورو کی لاش کو اس کے خاندان والوں کو لوٹا وغیرہ بیان کو ہمیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔مفتی دراصل یہ جتانا چاہ رہے ہیں کہ بیشک انہوں نے بھاجپا کے ساتھ گٹھ بندھن سرکار بنائی ہے پر وہ آج بھی اس اسٹینڈ پر قائم ہیں جو انہوں نے چناؤ مہم کے دوران لیا تھا۔یعنی وہ اپنے ووٹروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ دہلی کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایک وزیر اعلی کے طور سے ایسے بیان دینا انہیں زیب نہیں دیتا۔یہ بہتر ہے کہ پردھان منتری نے یہ صاف کردیا ہے کہ انہوں نے پی ڈی پی سے کامن منیمم پروگرام کے تحت سرکار بنائی ہے۔کوئی شخص اپنی ذاتی حیثیت میں کیا کرتا ہے اس کا جواب وہ نہیں دے سکتے۔ جب تک سرکار کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتی جو طے ایجنڈے سے الگ ہو تب تک بھاجپا اس پر رد عمل ظاہر نہیں کرے گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ وہی مفتی محمد سعید ہیں جنہیں 1989 میں بھاجپا نے الگاؤ وادی تک کہہ دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب 1989ء میں مفتی وی پی سنگھ سرکار میں وزیر داخلہ تھے تو ان کی بیٹی روبیہ سعید کا اغوا ہوگیا تھا اور اپنی بیٹی کو چھڑوانے کے لئے آتنکیوں کی اس مانگ کو مان لیا گیا تھا کہ روبیہ کے بدلے میں پانچ آتنکیوں کو رہا کیا جائے گا۔مبصرین کا ماننا ہے کہ کشمیر گھاٹی میں یہیں سے آتنک واد شروع ہوا تھا ، جو اب تک چل رہا ہے۔مرکزی وزیر داخلہ اور ریاست کے وزیر اعلی رہے مفتی سے اتنی امید ناجائز نہیں ہوسکتی کہ وہ بولنے سے پہلے حقائق پر ذرا نظر ڈالیں۔ جس پاکستان کو انہوں نے چناؤ لائق ماحول بنانے کا سہرہ دیا ہے وہ جتنا خون خرابہ کر سکتا تھا اس نے کیا۔ آتنکیوں کی گھس پیٹھ، جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحدی چوکیوں پر حملے، درجنوں سکیورٹی فورسز و سرپنچوں کی جان لینے کو اگر دوستانہ رویہ کہا جائے تو دشمنی کیا ہوگی؟ اگر جموں و کشمیر میں چناؤ کامیاب رہے ہیں تو اس کی وجہ وہاں کے عوام ہیں جنہوں نے بلٹ کی جگا بیلٹ کو ترجیح دی ہے۔
پاکستان ، الگاؤ وادیوں نے چناؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اسے ناکام بنایا ہماری سکیورٹی فورسز نے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر مفتی نے بنا سوچے سمجھے اس قسم کے بے تکے بیان کیوں دئے ہیں؟قطعی نہیں وہ جس پی ڈی پی کی رہنمائی کرتے ہیں اس کے دل میں حریت اور پاکستان کے تئیں نرم کونا شروع سے ہی رہا ہے۔یہ ان کی پہلی سرکار کے دوران مختلف موقعوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اس سارے واقعات میں اطمینان اس بات کا ہے کہ وزیراعلی کے عہدے کی حلف برداری کرتے وقت انہوں نے بھارتی آئین کی سرکشا کرنے کا حلف آئین کے تحت ہی لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو بھارتی آئین کے خلاف ہو۔ کڑوی سچائی تو یہ بھی ہے کہ مفتی کی پارٹی کا بھاجپا سے مل کر سرکار بنانا نہ تو ان کے ووٹروں کو پسند آرہا ہے نہ حریت کو اور نہ ہی پاکستان کو۔ حریت کبھی بھی سرکار کا سمرتھن نہیں کرسکتی۔سوموار کو حریت کے ترجمان اعجاز اکبر نے مفتی کے متنازع بیانوں کو بکواس اور غیر حقیقیقراردیا۔ اکبر نے کہا جہاں تک حریت کانفرنس کی بات ہے تو اس کی پوری لیڈر شپ کو سینکڑوں ورکروں اور معاونین کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا تھا یا نظر بند کردیا گیا تھا۔ ایسے میں مفتی کو سپورٹ کرنا غیر حقیقی اور نامناسب ہے۔ یہ محض ایک سیاسی چال ہے۔ فی الحال مفتی کے بیان سے نئی بنی پی ڈی پی۔ بھاجپا سرکار کی بنیاد ٹیڑھی اور کمزور ہوئی ہے۔آخر کار دیر سویر انہیں غلطی سدھارنے کا حوصلہ دکھانا ہوگا۔ویسے اس گٹھ بندھن سرکار کو چلانا دونوں کے لئے چنوتی ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں