تاریخی سرکار لیکن چنوتیاں کم نہیں

جموں و کشمیر میں لمبے انتظار کے بعد آخر کار پی ڈی پی اور بھاجپا گٹھ بندھن کی سرکار بن گئی ہے۔ اسے تاریخی پہل بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس گٹھ بندھن سرکار کے بننے سے دو مہینے سے جاری سیاسی غیر یقینی صورتحال اور اٹکل بازیوں پرروک لگ گئی۔ پی ڈی پی کے سرپرست مفتی محمد سعید کو ایتوار کو جموں وکشمیر کے وزیر اعلی عہدے کا حلف دلایا گیا۔ وہ بھاجپا کے ساتھ مل کر بنائی گئی گٹھ بندھن سرکار کی رہنمائی کررہے ہیں۔ الگاؤ وادیوں سے سرگرم سیاست میں آئے سجاد لون نے بھاجپا کوٹے سے کیبنٹ وزیر کے طور پر حلف لیا۔سعید کے بعد بھاجپا کے نرمل سنگھ نے حلف لیا۔ وہ ریاست کے ڈپٹی وزیر اعلی ہوں گے۔ یہ پہلی بار ہے جب بھاجپا جموں و کشمیر میں کسی سرکار کا حصہ بنی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جموں و کشمیر میں دو مختلف خیال پارٹیوں کی سرکار بنی ہے۔ مفتی محمد سعید نے سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب اختلافات ہوں تو بھی انسان کو صبر سے کام لینے کی کلا کو سیاست کہتے ہیں۔اس سے پہلے دونوں پارٹیوں کے درمیان گٹھ بندھن کے امکانات پر سعید نے قطب شمالی و قطب جنوبی کا ملنا قراردیاتھایہ ایسی دو سیاسی پارٹیوں کا ملن ہے جن کا سیاسی ایجنڈا بھی الگ ہے اور نظریہ بھی۔فی الحال تو نہ صرف صوبے بلکہ ملک کے لئے یہ بڑی راحت ہے کہ نظریہ الگ ہونے ، سیاسی ایجنڈا الگ ہونے کے باوجود دونوں پارٹیاں گٹھ بندھن کے لئے رضامند ہوئیں۔دیر سویر یہ ہونا ہی تھا اس لئے کہ جس طرح کا مینڈینٹ آیا اس میں 87 سیٹوں والی اسمبلی میں کسی دل کو صاف اکثریت نہیں ملی۔ پی ڈی پی کوکشمیر علاقے میں28 اور بھاجپا کو جموں علاقے میں 25 سیٹیں ملیں تھیں۔ جموں و کشمیرمیں تین علاقے ہیں گھاٹی، جموں اور لداخ۔ حالانکہ بکھری ہوئی عوامی تائیدکے چلتے ایک سیاسی سمی کرن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانگریس ایک ساتھ آجاتے لیکن ایسا عوامی تائید کی منمانی تشریح کرکے ہی ہوسکتا تھا۔مناسب یہی تھا کہ پہلے اور دوسرے نمبر کی پارٹیاں ہی اکھٹی ہوکر سرکار بنائیں۔ اس سے تینوں ہی علاقوں کو سرکار میں حصے داری مل رہی ہے کیونکہ پی ڈی پی اور بھاجپا نے مل جل کر سرکار بنانے سے پہلے پورے دو مہینے غور و خوض کیا اور ایک کامن منیمم پروگرام لیکر بھی سامنے آئے ہیں۔ اس لئے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اختلاف بھلا کر عوامی امیدوں کو پورا کرنے کو اہمیت دیں گے۔ بھاجپا نے دفعہ 370 پر زور نہ دینا مان لیا ہے تو پی ڈی پی نے افسپا پر اپنے سر کو نرم رکھا ہے۔ پھر بھی بہت سے سوال پہلے کے بھی بچتے ہیں اور کچھ ایک حکومت کے دوران بھی ابھر کر آئیں گے۔ مثلاً کشمیری پنڈتوں کی واپسی یقینی بنانا، سرحد پار سے آنے والے شرنارتھیوں و ان کی بازآبادکاری، الگاؤ وادیوں و اس کی حامی حریت کانفرنس آتنک واد اور اس کے خلاف کارروائی کی حقیقی کمان جموں و کشمیر اور لداخ کے درمیان وکاس کے خاکے، ذرائع کا بٹوارہ وغیرہ کو لیکر رسہ کشی کا خدشہ شاید ہی ختم ہو اس لئے دونوں دلوں کے نیتاٹھیک ہی کرررہے ہیں کہ اسے سیاسی سانجھے داری نہیں بلکہ حکمت کے گٹھ بندھن کے طور پر دیکھنا ہی ٹھیک رہے گا۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ پی ڈی پی اپنی پرانی حرکتوں سے اس بار بچتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ حلف لیتے ہی مفتی کا پہلا پیغام بھاجپا کے لئے فکر کا باعث بن گیا ہے۔ مفتی محمد سعید نے حلف لینے کے فوراً بعد پریس کانفرنس میں چناؤ ہونے دینے کیلئے حریت اور پاکستان کی کارگزاری کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے تئیں شکریہ جتا دیا جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان دونوں نے غیر جانبدارانہ اور آزاد چناؤ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بھاجپا کے سرکار میں آنے سے امید کی جاتی ہے کہ وہ پی ڈی پی پر قابو رکھے گی۔ مفتی کا یہ بیان ہر لحاظ سے غیرمعمولی اور قومی مفاد کے لئے خطرہ بنے عناصر کو طاقت مہیا کرنے والا ہے۔ بیشک بھاجپا نے اس سے اپنی نااتفاقی جتائی ہے لیکن اس سے یہ تو صاف ہوہی جاتا ہے کہ اس کے سامنے کیسی کیسی مشکلیں پیدا ہونے والی ہیں۔بھاجپا اور پی ڈی پی دونوں کو ایک کامیاب صاف ستھری اور جنتا کے مفاد کے لئے کام کرنے والی سرکار چلانے کی چنوتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!