راجیو گاندھی کے قاتلوں کو چھوڑنے کی تیاری پر روک!
سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کو سرکار پھانسی کے پھندے تک نہیں پہنچاپائی۔ منگل کے روز سپریم کورٹ نے کانگریس کی قیادت والی یوپی اے سرکار کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے راجیو گاندھی کے تینوں قاتلوں کی پھانسی عمر قید میں بدل دی تھی۔ عدالت نے رحم کی عرضی نپٹانے میں ہوئی 11 سال کی تاخیر کو اذیت اور غیر مناسب مانتے ہوئے فیصلہ دیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب دہشت گردوں کو پھانسی کی رحم کی عرضی نپٹانے میں تاخیر کو بنیادبنا کر معاف کیا۔ اس سے پہلے21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے 15 قصورواروں کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدلا تھا۔ راجیو گاندھی کا قتل21 مئی 1991ء میں تاملناڈو کے علاقے سری پرم بدور لبریشن ٹائیگرز کے خودکش دستے نے بم دھماکہ کرکے کیا تھا۔ ٹاڈا عدالت نے چاروں قاتلوں سری ہرن عرف مروگن، ٹی ستیندر راجہ عرف سانتن، اے جی پیرا ریولن عرف عرق اور ایک عورت قصوروار نلنی کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ عدالت نے 11 مئی 1999ء میں چاروں کی پھانسی پر مہر لگادی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پی سداشیوم کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی سرکار کی اس دلیل کو سرے سے مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا عرضی نپٹانے میں نامناسب تاخیر نہیں ہوئی ہے اور اس سے قصورواروں کو ذہنی اذیت نہیں جھیلنی پڑی۔ پچھلے ماہ بھی اپنے ایسے ہی فیصلے میں عدالت نے رحم کی درخواست نپٹارے میں ہوئی تاخیر کی بنیادپر موت کی سزا پائے 15 قصورواروں کو راحت دی تھی۔ عدالت کی اس دلیل سے متفق نہیں ہوا جاسکتا۔ موت کی سزا پر عمل برسوں ٹلتے رہنا غلط ہے۔ سرکار اب لاکھ دلیل دے لیکن اس کے پاس اس بات کا کوئی باقاعدہ جواب نہیں کہ کسی کی رحم کی درخواست کو نپٹانے میں 10 سال کا وقت کیوں لگتا ہے؟ عدالت کا کہنا بھی واجب ہے کے سرکار رحم کی عرضیوں کے سلسلے میں صدر کو مناسب وقت کے اندر صلاح دے ۔فیصلہ آتے ہی تاملناڈو کی جے للتا سرکار نے راجیوقتل کانڈ کے ساتوں مجرموں کی وقت سے پہلے رہائی کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس نائب پردھان راہل گاندھی اس فیصلے پر کافی دکھی ہیں اور جذباتی بھی نظر آئے لیکن ڈی ایم کے چیف کروناندھی نے اپنی کٹر سیاسی حریف جے للتا کے فیصلے کی تعریف کی۔جے للتا نے کہا تھا کہ سبھی قصوروار 27 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ سرکار نے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاستی سرکار اس فیصلے کو منظوری کے لئے مرکز کے پاس بھیجے گی کیونکہ یہ معاملہ سی بی آئی نے درج کیا تھا ۔ ادھر اس فیصلے کے بعد کانگریس نائب پردھان راہل گاندھی نے امیٹھی چناؤ ریلی میں کہا کہ میں دکھی ہوں کہ قاتل رہا کئے جارہے ہیں اگر کسی شخص نے پردھان منتری کو مارا اور رہا کیا جارہا ہے تو عام آدمی کو انصاف کیسے ملے گا؟ اس دیش میں وزیر اعظم کو بھی انصاف نہیں ملتا اور یہ میرے دل کی آواز ہے۔ میں موت کی سزا میں یقین نہیں رکھتا کیونکہ اس سے میرے والد واپس نہیں آسکتے۔ لیکن یہ میرے والد یا خاندان کا نہیں دیش کا اشو ہے۔ ہم راہل گاندھی کے دکھ کو سمجھ سکتے ہیں اور ان سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ رحم کی عرضیوں کے نپٹارے میں 11 سال کی تاخیر کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ کانگریس کی یوپی اے سرکار کیوں اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہے؟ صدر اور وزارت داخلہ اگر چاہتے تو رحم کی عرضی کو جلد نپٹا سکتے تھے۔رہی بات سپریم کورٹ کے فیصلے کی تو پچھلے مہینے رحم کی عرضی میں تاخیر کی بنیاد پر پھانسی کی سزا پائے 15 قصورواروں کی سزا عمر قیدمیں تبدیل کی گئی تھی۔ ان میں خطرناک ویرپپن کا ساتھی بھی شامل ہے جنہوں نے ایک بہادر پولیس افسر سمیت کئی پولیس والوں کو مار ڈالا تھا اور مبینہ دیری کی بنیادپر پھانسی کی سزا پائے لوگوں کو راحت دینا ہندوستانی آئینی سسٹم پر جہاں سوالیہ نشان لگتا ہے وہیں ان لوگوں کی قربانی کو بھی نظر انداز کیا جو اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران خطرناک مجرموں کا شکار بن گئے۔ اس حالت کے لئے مشینری تو ذمہ دار ہے ہی جو رحم کی عرضیوں کا نپٹارہ تیزی سے کرنے کے بجائے ووٹ بینک کی سیاست کا فائدہ لینے میں تاخیر کرتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہم معافی چاہیں گے کہیں نہ کہیں سپریم کورٹ کی بھی جوابدہی بنتی ہے کہ جن لوگوں کو پھانسی کی سزا کی تردید خود سپریم کورٹ نے کی تھی وہ اب اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ پھانسی کی سزا پائے قصورواروں کی رحم کی عرضی کے نپٹانے میں برسوں کی دیری در حقیقت ان کے ساتھ ایک ظلم ہے۔تازہ ترین اطلاع ہے کہ سپریم کورٹ نے تاملناڈو سرکار کے ذریعے امکانی رہائی کے فیصلے پر روک لگادی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں