بڑے بے آبرو ہوکے تیرے کوچے سے ہم نکلے!

8 دسمبر2013 کو دہلی کی سیاست میں اروند کیجریوال کا آنا کسی ہیرو کی طرح ہوا تھا۔ جس کی چمتکاری شخصیت کے پاس ہر مرض کی دوا تھی ۔وہ آدھی قیمت پر بجلی دے سکتا ہے، وہ پوری دہلی کومفت پانی دلا سکتا ہے، وہ بدعنوان شیلا سرکار کے سارے کالے کارناموں کا پردہ فاش کرکے قصوروار وزیر اعلی و ان کے وزرا کو جیل کی ہوا کھلا سکتا ہے، وہ بدعنوان بجلی کمپنیوں اور سرکاری ملازمین کو سبق سکھا سکتا ہے ، وہ بدعنوانی کو ختم کرسکتا ہے، سرکاری محکموں میں جزوقتی طور پر کام کررہے ساڑھے چار لاکھ ملازمین کو کل وقتی کر سکتا ہے، لیکن وہ اس سے پہلے کہ یہ سب وعدے پورے کرتے ڈرامائی انداز سے بھاگ لئے۔ دہلی میں نئی طرح کی سیاست کا مزہ چکھانے کا وعدہ کر اقتدار میں آئے مکھیہ منتری اروند کیجریوال 49 دنوں میں سرکار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ 
شکروار کو لوک سبھا چناؤ میں اترنے کی جلد بازی میں عام آدمی پارٹی کے مکھیا نے جن لوک پال بل کو اس کا بہانا بنایا اور لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کو استعفیٰ دے دیا۔ کیجریوال ایک چالاک سیاسی لیڈر ثابت ہوئے۔کچھ لوگوں کو لگا کہ شاید وہ سیاست میں نوسکھیا ہیں لیکن شکروار کو جس ڈرامائی انداز میں انہوں نے شہید بننے کا ناٹک کیا اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ ایک چالاک اور منجھے ہوئے سیاستداں ہیں۔سبھی مان رہے تھے کہ اس پہلی غیر کانگریس ، غیر بھاجپا اقلیتی سرکار کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہے ۔ سرکار کو کب گرایا جائے گا یا خود کیجریوال میدان سے بھاگیں گے بس سوال اتنا سا ہی تھا۔ودھان سبھا اجلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس بات کا پختہ اندازہ مجھے تھا کہ اروند کیجریوال نے اپنی سرکار کی بدائی کا من بنا لیا ہے لیکن وہ اسے عام طریقے سے نہ کرکے شہادت کے طور پر کرتے ہوئے دکھنا چاہتے ہیں۔ جیسے کروکشیتر کے میدان میں ابھیمنیو کا ود ہوا ہو اور دگجوں نے فریب دیکر مار دیا ہو۔ 
عام آدمی کے حکمت عملی سازوں کا ماننا تھا کہ کانگریس کی بیساکھیوں پر اس سرکار کا زیادہ لمبے وقت تک چلنا ناممکن ہے۔اگر کسی بھی طرح سرکار چل بھی گئی تو اس کی عمر لوک سبھا چناؤ سے زیادہ نہیں ہے۔ وہیں اگر لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کے نریندر مودی کا تیر چل گیا تو حالات بد سے بدتر ہوسکتے ہیں۔ ان حالاتوں میں مرکز میں اگر سرکار کانگریس کی بنتی ہے یا خود گرجاتی ہے تو اس کا فائدہ پارٹی کو ملنے کی جگہ اس کا نقصان ہی ہوگا۔ پارٹی سپہ سالاروں نے اس کے لئے سیشن سے پہلے ہی شطرنجی ڈھنگ سے بساط بچھا رکھی تھی۔ انہیں اگلے قدم پر کیا کرنا ہے جس سے سرکار گرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ بنانا اس کی حکمت عملی تھی جس کا موقعہ انہیں متحدہ اپوزیشن ، لیفٹیننٹ گورنر کے اسٹینڈ نے دے دیا ۔
اروند کیجریوال نے طے شدہ راجنیتی کے تحت ڈرامائی ڈھنگ سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے لئے کناٹ پلیس میں ہمایوں روڈ پر واقع پارٹی دفتر میں پہلے سے ہی تیاری ہوچکی تھی۔پارٹی نے اپنے رضاکاروں کو پہلے سے ہی بتا رکھا تھا کہ وہ ہنومان روڈ پر پارٹی دفتر میں حاضر رہیں۔ پارٹی نے ایک چھوٹی اسکرین بھی لگا رکھی تھی تاکہ کارکن ودھان سبھا میں اروند کیجریوال کو دیکھیں اور سنیں۔ کیجریوال نے اسے پرتیکاتمک بنانے کے لئے اسی کھڑکی سے 15 منٹ کا بھاشن دیا جس سے انہوں نے دہلی ودھان سبھا چناؤ میں جیت کے بعدبھاشن دیا تھا۔ انا ہزارے کی طرف سے ملے مثبت پیغامات سے بھی اروند کیجریوال کو لگا کہ وقت آگیا ہے کہ بڑی بڑھت کے لئے چھوٹی قربانی دے دیں۔ اس سے مجھے شاہ رخ خان کی فلم ’’بازیکر‘‘ کا وہ ڈائیلاگ یاد آگیا ’’کبھی کبھی جیتنے کے لئے ہارنا ضروری ہوتا ہے، ہار کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں‘‘ ۔ آپ سمرتھکوں کا تو یہ ہی کہنا ہے عام آدمی سمرتھک اروند کیجریوال کے استعفے کو صحیح مان رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سرکار بنی ہی اس لئے تھی کہ بھارت بھرشٹاچار مکت دیش بنے۔لیکن کانگریس، بھاجپا و مکیش انبانی ایسا نہیں چاہتے تھے۔ بھاجپا اور کانگریس نے جن لوک پال بل کی مخالفت کرکے اپنی اصلی تصویر دکھا دی ہے۔ 
مکیش انبانی کے خلاف معاملہ درج ہوتے ہی دونوں پارٹیاں تلملا گئیں۔ انہیں لگا کہ جن لوک پال بل پاس ہوگیا تو ان کی خیر نہیں اس لئے انہوں نے بل پاس نہیں ہونے دیا۔ دوسری جانب عام آدمی کو ووٹ دینے والے اپنے آپ کو چھلا محسوس کررہے ہیں۔ جنتا سوال کررہی ہے کہ اگر فی الحال جن لوک پال پاس نہیں ہوتا تو کیا آفت آجاتی؟ پہلے دہلی کی جھگی جھونپڑی میں رہنے والے غریب لوگوں کو مکان دینا ضروری نہیں تھا؟ کیا بجلی پانی کے انتظام کو چست درست کرنا ضروری نہیں تھا؟ اسپتالوں میں خراب حالات کو سدھارنا ضروری نہیں تھا؟ اگر مرکزی سرکار ان کا جن لوک پال پاس نہیں کرتی تو کیجریوال اس کے خلاف سیاسی لڑائی لڑ سکتے تھے لیکن وہ تو پہلے دن سے کہتے رہے کہ اگر یہ بل پاس نہیں ہوگا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ اصل میں کیجریوال کو معلوم تھا کہ وہ اپنے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کرسکتے اس لئے بھاگنے کا موقعہ دیکھ رہے تھے۔ وہ شہید بن کر جنتا کے سامنے جانا چاہتے تھے۔ عام آدمی پارٹی کی سرکار صرف49 دن ہی حکومت میں رہی اس دوران ایک دن بھی ایسا نہیں رہا جب کسی نہ کسی مدعے پر کیجریوال نے ویواد پیدا نہ کیا ہو۔ قانون منتری بھارتی کی کارکردگی پر لگتار سوال اٹھتے رہے۔ بہ نسبت اس کے بھارتی کو کچھ کہتے اروند کیجریوال آئین ، قانون و انتظام کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود دھرنے پر بیٹھ گئے۔
ہمارے مطابق اس سرکار کی الٹی گنتی اسی دن سے شروع ہوگئی تھی ۔کیجریوال کے استعفیٰ دینے کے بعد جنتا میں موضوع بحث ہے کہ بہتر ہوتا اگر انہوں نے اپنے قانون منتری سومناتھ بھارتی کے مدعے پر دہلی پولیس کے خلاف یوم جمہوریہ کی تیاریوں کے درمیان ریل بھون پر دھرنا نہیں دیا ہوتا۔ ان کے ووٹر بھی اس قدم سے حیران تھے۔ سرکار چلانا اور دھرنا دینا دونوں کام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
بیشک ٹی وی چینلوں پر ان کے ہمدر یہ کہیں کہ کیجریوال کا استعفے کے بعد سیاسی قد بڑھا ہے پر ہمیں لگتا ہے کہ ان کے سمرتھکوں نے بھاری کمی آئی ہے۔جن لوگوں نے انہیں ودھان سبھا میں ووٹ دئے تھے ان میں پڑھا لکھا طبقہ ان کی حرکتوں اور ان کی انارکی سے مایوس ہوئے ہیں اور وہ اب دوبارہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے لیکن یہ میرا اپنا خیال ہے ۔تاریخ کے صفحات میں جب کیجریوال کے ساشن کے 49 دنوں کی حکومت کا ذکر ہوگا تو پتہ نہیں انہیں ہیرو لکھا جائے گا یا زیرو؟ کبھی کبھی اقتدار کے 49 دن بھی سمرتھکوں کے بڑے حصے کو ورودھی بنانے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ دہلی سرکار کی بلی چڑھا کر آپ کو اب اتنی فرصت تو مل ہی جائے گی کہ وہ دیش کی بڑے پیمانے پر راجنیتی میں اپنی پوری توجہ دے سکیں اور جیسا اروند کیجریوال دعوی کررہے ہیں آئندہ چناؤ میں 50 سے زیادہ سیٹیں جیتیں گے پر پوری طاقت جھونک دیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!