معاملہ طلاق کو آسان بنانے کا



Published On 4 May 2012
انل نریندر

طلاق کو آسان بنانے کی قواعد والے بل کو لیکر بدھوار کو راجیہ سبھا میں خاصہ تنازعہ ہوا ہے۔سرکار کو باہر سے سمرتھن دے رہے دلوں سمیت مختلف دلوں میں اس بل کو خواتین مخالف بتاتے ہوئے اس کے قواعد پر اعتراض جتایا۔ بھارتیہ سنسکرتی اور پرمپرامیں شادی کی پاکیزگی اوراس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بھاجپا ، بیجو جنتا دل ، تیلگو دیشم پارٹی ، وام دلوں اور سرکار کو باہر سے سمرتھن دے رہے سپا اور بسپا نے ہندو شادی ایکٹ (ترمیم )بل 2010ء کو پرور کمیٹی میں بھیجے جانے کی مانگ کی۔ ممبروں کا کہنا تھا کہ اس بل کے قواعد سے جہاں طلاق کی نوعیت بڑھے گی وہیں مہلاؤں کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔ ممبروں نے تنازعے سے ہوئے بچوں کے تحفظ کا حق اور ان کی پرورش کی ذمہ داری بھی واضح کئے جانے کی مانگ کی۔اس سے پہلے سپا کے نریش اگروال نے مانگ کی کہ اسے آگے کی بحث کے لئے پرور کمیٹی میں بھیج دیا جانا چاہئے۔ جیہ بچن نے اس بل کو سخت بتاتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ سماج کے ایک خاص طبقے اور کچھ لوگوں کو دھیان میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ طلاق کے عمل کو اتنا آسان بھی مت بنا دیجئے کہ باتوں ہی باتوں میں طلاق ہوجائے۔ بیجو جنتا دل کے ویشنو پرووا بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے ایم پی اچیوتن اور تیلگو دیشم پارٹی کے جی سدھارانی نے بھی اسے خاتون مخالف بتاتے ہوئے پرور کمیٹی کو بھیجنے کی مانگ کی ہے۔ بھاجپا کی مایا سنگھ نے کہا کہ اس بل سے خواتین خاص کر دیہی حلقوں میں خواتین کی پڑیشانی بڑھ جائے گی۔ کانگریس کے شادی لال بترا نے اس بات پراعتراض ظاہر کیا کہ بل میں گذارہ بھتے کے بارے میں طے کرنے کا حق عدالت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسری طرف بل کا سواگت کرتے ہوئے کانگریس کے سیف الدین سوز اور شانتا رام نارک نے کہا کہ جہاں تک ہو طلاق سے بچنا چاہئے۔ اس بل سے عورتوں کا وقار بڑھے گا اور انہیں کافی راحت ملے گی۔ کنی موجھی نے بل کا سواگتکرتے ہوئے کہا کہ اگر پتی پتنی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو الگ ہوجانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل میں بچوں کے تحفظ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ راشٹریہ کانگریس پارٹی کے وائی پی ترویدی نے بل کا سواگت کرتے ہوئے کہا کہ جب حالات ایسے بن جائیں تو اسے ایک بہتر موڑ دینا ہی صحیح ہوگا۔ ادھر سرکار کی طرف سے قانون منتری سلمان خورشید نے کہا کہ ممبروں کے ذریعے دئے گئے سجھاؤں اوران کے اعتراضات کے مطالعہ کیلئے وقت دینے کی ضرورت ہے۔ ہماراکہنا ہے کہ کیونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے مذہب سے بھی جڑا ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ علماؤں کی رائے بھی جان لی جائے۔مسلم خواتین نمائندوں سے بھی ان کی رائے جانی جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مستقبل میں کسی طرح کے مذہبی ٹکڑاؤ سے بچا جاسکے۔ معاملہ پیچیدہ ہے سوچ سمجھ کر ہی کوئی قدم اٹھایا جائے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Hindu Law, Hindu Marriage Act. Hindu Succession Act, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!