سردار پورہ مقدمے میں فیصلے کا خیر مقدم ہے




Published On 15th November 2011
انل نریندر
کافی جدوجہد اور قانونی داؤ پیچ اور طویل انتظار کے بعد آخر کار گجرات میں گودھرا سابرمتی ایکسپریس میں ہوئے آگ سانحہ کے بعد بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات سے وابستہ معاملے میں پہلا فیصلہ آگیا ہے۔ محسانا ضلع کے سردار پورہ گاؤں میں ہوئے اس دنگے میں 37 لوگ مارے گئے تھے۔ اس قتل عام میں خصوصی عدالت نے 31 ملزمان کو قصوروار قراردیا ہے اور انہیں عمر قید سنائی ہے۔ قصورواروں کو قتل ،فساد اور اقدام قتل کی کوشش سمیت18 دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔ جسٹس ایس سی شریواستو کی عدالت نے اپنے ایک ہزار صفحات پر مبنی فیصلے میں 42 ملزمان کو بری کردیا ہے۔ ان میں سے 11 کو ثبوتوں کی کمی کے سبب چھوڑا گیا ہے۔ دیگر 31 کو شبہ کا فائدہ ملا ہے۔ اس معاملے میں کل 76 ملزمان تھے ان میں ایک نابالغ بھی ہے جبکہ دو کی موت ہوچکی ہے۔ دنگا متاثرین کی جانب سے لڑ رہے ریاست کے سابق ڈائریکٹر جنرل آر بی شری کمار نے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ دیش میں اس سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے مقدمے میں تاریخ میں اتنے لوگوں کو کبھی ایک ساتھ سزا نہیں ہوئی تھی۔ ایسا تو بھاگلپور اور بیسٹ بیکری معاملوں میں بھی نہیں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) گودھرا فسادات کے بعد 9 معاملوں کی جانچ کررہی ہے۔ یہ پہلا معاملہ ہے جس میں فیصلہ آیا ہے۔ ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون نے بتایا کہ یہ فیصلہ تسلی بخش ہے ، میں اس سے خوش ہوں۔ یہ میرے افسران کی کڑی محنت کا پھل ہے۔
سردار پورہ میں ہوا دنگا گجرات میں ان بڑے 9 فسادات میں شامل ہے جن میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے جن کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔ ان دنگوں کا آغاز27 فروری 2009 کو گودھرا میں ایودھیا سے آرہی سابرمتی ایکسپریس ٹرین میں کارسیوکوں پر قاتلانہ حملے کے بعد ہوا تھا جس میں 59 لوگ مارے گئے تھے۔ فسادات کا داغ گجرات سرکار خاص کر وزیر اعلی نریندر مودی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ آج بھی انہیں ان دنگوں کے لئے ہر جگہ جواب دینا پڑتا ہے۔ دراصل گودھرا اور اس کے بعد ہوئے فسادات کو لیکر اتنی سیاست ہوئی کبھی تو ایسا لگنے لگاتھا کہ شاید ہی متاثرین کو انصاف ملے۔ الزام در الزام گواہوں کا مکرنا، غائب ہونا، گواہی کا سلسلہ ایسا چلا کہ اصل اشو تو بیچ میں ہی دب گیا۔ اس فیصلے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ عدالت نے قتل اور اقدام قتل، فسادات اور دیگر الزامات کو تو صحیح پایا مگر عدالت نے مجرمانہ سازش کے الزامات کو مسترد کردیا۔ اس فیصلے کے بعد ایس ٹی ایف کی کارگذاری کو لیکر سوال اٹھنا فطری ہی ہے۔ مجرمانہ سازش کو ثابت نہ کرپانا اس کی ناکامی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس فیصلے کو نفع نقصان کی شکل میں لینے کے بجائے انصاف کی شکل میں دیکھنا چاہئے۔ اس فیصلے سے یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ سماج میں گھناونے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی صاف ہوا ہے کہ انصاف میں بھلے ہی دیر ہو اندھیر نہیں۔ وقت ضرور لگا لیکن آخر کار انصاف ملا۔ امید ہے دنگوں سے وابستہ سبھی معاملوں کا نپٹارہ جلد ہوگا تاکہ اس بابا کا خاتمہ ہوسکے۔
Anil Narendra, Court, Daily Pratap, Godhra, Gujarat, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!