بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تیسری برسی
Published On 21th September 2011
انل نریندر
تین سال پہلے 19 ستمبر کا وہ دن جب ساؤتھ دہلی کے بٹلہ ہاؤس علاقے میں ایک مکان میں روپوش آتنکیوں کے بارے میں خبر کے بعد دہلی پولیس کے تیز طرار انسپکٹر موہن چند شرما نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خطرناک آتنکیوں سے لوہا لیا اور وہ اس کارروائی میں شہید ہوگئے تھے۔ دوسری طرف کچھ کٹر پسند نیتا اور کچھ سیاستداں اس واقعے پر سیاست سے باز نہیں آتے۔ اسے فرضی انکاؤنٹر کہہ کر ہر سال بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو یاد کیا جاتا ہے۔ بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ کی تیسری برسی پر پیر کو نئی دہلی کے جنتر منتر پر مظاہرہ کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مڈ بھیڑ کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے۔اس مظاہرے میں اعظم گڑھ سے اسپیشل ٹرین میں آئے راشٹریہ علما کونسل کے ممبروں نے حصہ لیا۔ کونسل نے کہا آتنک واد کے نام پر اعظم گڑھ کو بدنام کیا گیا اور کیا جارہا ہے ،جو بند ہونا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ علماؤں نے ہزاروں حمایتیوں کے درمیان کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ پر بھی خاص نشانہ لگایا۔ دگوجے سنگھ نے کچھ مہینے پہلے اعظم گڑھ ضلع کے سنجر پور گاؤں کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ پر سوال اٹھائے تھے۔ قابل غور ہے کہ19 ستمبر 2008 ء کو ہوئی مڈ بھیڑ میں مارے گئے دو مشتبہ لڑکوں عتیق امین اور محمد ساجد کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ علما کونسل کے قومی چیئرمین مولانا ذاکررشید مدنی نے کہا کہ یہ کتنی عجب بات ہے کہ دگوجے سنگھ سنجر پور جاکر اس مڈ بھیڑ پر سوال کھڑے کرتے ہیں لیکن دہلی میں ان کی سرکار ہے جو اس معاملے کی اعلی سطحی جانچ نہیں کروا رہی ہے۔ انہوں نے کہا دگوجے سنگھ نے مجھ سے خود کہا تھا کہ انہوں نے اس مڈ بھیڑ کے فرضی ہونے کی بات کانگریس صدر سونیا گاندھی، وزیر اعظم منموہن سنگھ سے کہی تھی لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ مجھے لگتا ہے دگوجے سنگھ صرف نوٹنکی کرتے ہیں، انہیں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ احتجاجی مظاہرے میں شامل لوگوں نے سونیا، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کے خلاف بھی جم کر نعرے بازی کی۔ حالانکہ لوگوں کے نشانے پر سب سے زیادہ دگوجے سنگھ رہے۔
جنتر منتر میں علماؤں کا مظاہرہ ہو رہا تھا تو دہلی کے دوسرے کونے میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں شہید ہوئے دہلی پولیس کے افسر موہن چند شرما کے گھر پر ان کا کنبہ انہیں اکیلا ہی یاد کررہا تھا۔ ان کے خاندان نے کسی سے بھی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے میڈیا سے بھی دور رہنا ٹھیک سمجھا۔ ان کے گھر پر پولیس ملازمین کا پہرہ تھا۔ ان کے گھر میں گئے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ان کے ماتا پتا کے سامنے آج بھی 2008 کا منظر آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ یہ ہمارے دیش کی بدقسمتی ہی ہے کہ اس مڈ بھیڑ کو محض ووٹوں کی خاطر فرضی قراردیا جارہا ہے اور اس پر سیاست ہورہی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے کئی عدالتوں نے اسے صحیح کارروائی قراردیا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر سیاست جاری ہے۔ ان سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ہماری سکیورٹی فورسز پر کیا اثر پڑے گا؟ انسپکٹر موہن چند شرما کی شہادت کے بعد جس طرح نیتاؤں نے منفی سیاست کے چلتے اس انکاؤنٹر پر شبہ کیا اور آتنکیوں کی سرپرستی کی زبان بولی اور جانباز انسپکٹر کی شہادت کو شبے کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، اس سے یقینی طور پر دہلی پولیس کے جانباز جوانوں کا ہی نہیں بلکہ پوری دیش کی فورسز کا حوصلہ ٹوٹا ہوگا۔ اس کا منفی اثر یہ ضرور ہوا کہ پولیس اور دیگر فورسز کے جوان اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ آتنک کے خلاف چپ بیٹھنا اور سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا ان کا پہلا فرض ہے آتنکیوں کو پکڑنا نہیں۔ نتیجے کے طور پراب راجدھانی دہلی میں کوئی بھی بم دھماکہ ہو اس میں پولیس کے ہاتھ خالی تھے اور خالی ہیں۔ اور ہوں بھی کیوں نہ اگر وہ اپنی جانبازی سے آتنکی کو پکڑ بھی لیں تو سرکار مقدمے میں لگ جائے گی اور پھانسی کی سزا ہوگی تو اسے لیٹ کرایا جائے گا اور آتنکیوں کو سرکاری مہمان بنا کر ان کی خاطر داری میں لگی ہوگی۔ بہرحال بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تیسری برسی پر دہلی پولیس کے جانباز انسپکٹر چندر موہن شرما کو تمام دیش واسیوں کی طرف سے شت شت نمن:
آج ان کی سمادھی پر ایک دیا بھی نہیں۔ جن کے چراغوں سے جلا کرتے تھے اہل وطن
جنتر منتر میں علماؤں کا مظاہرہ ہو رہا تھا تو دہلی کے دوسرے کونے میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں شہید ہوئے دہلی پولیس کے افسر موہن چند شرما کے گھر پر ان کا کنبہ انہیں اکیلا ہی یاد کررہا تھا۔ ان کے خاندان نے کسی سے بھی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے میڈیا سے بھی دور رہنا ٹھیک سمجھا۔ ان کے گھر پر پولیس ملازمین کا پہرہ تھا۔ ان کے گھر میں گئے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ان کے ماتا پتا کے سامنے آج بھی 2008 کا منظر آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ یہ ہمارے دیش کی بدقسمتی ہی ہے کہ اس مڈ بھیڑ کو محض ووٹوں کی خاطر فرضی قراردیا جارہا ہے اور اس پر سیاست ہورہی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے کئی عدالتوں نے اسے صحیح کارروائی قراردیا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر سیاست جاری ہے۔ ان سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ہماری سکیورٹی فورسز پر کیا اثر پڑے گا؟ انسپکٹر موہن چند شرما کی شہادت کے بعد جس طرح نیتاؤں نے منفی سیاست کے چلتے اس انکاؤنٹر پر شبہ کیا اور آتنکیوں کی سرپرستی کی زبان بولی اور جانباز انسپکٹر کی شہادت کو شبے کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، اس سے یقینی طور پر دہلی پولیس کے جانباز جوانوں کا ہی نہیں بلکہ پوری دیش کی فورسز کا حوصلہ ٹوٹا ہوگا۔ اس کا منفی اثر یہ ضرور ہوا کہ پولیس اور دیگر فورسز کے جوان اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ آتنک کے خلاف چپ بیٹھنا اور سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا ان کا پہلا فرض ہے آتنکیوں کو پکڑنا نہیں۔ نتیجے کے طور پراب راجدھانی دہلی میں کوئی بھی بم دھماکہ ہو اس میں پولیس کے ہاتھ خالی تھے اور خالی ہیں۔ اور ہوں بھی کیوں نہ اگر وہ اپنی جانبازی سے آتنکی کو پکڑ بھی لیں تو سرکار مقدمے میں لگ جائے گی اور پھانسی کی سزا ہوگی تو اسے لیٹ کرایا جائے گا اور آتنکیوں کو سرکاری مہمان بنا کر ان کی خاطر داری میں لگی ہوگی۔ بہرحال بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تیسری برسی پر دہلی پولیس کے جانباز انسپکٹر چندر موہن شرما کو تمام دیش واسیوں کی طرف سے شت شت نمن:
آج ان کی سمادھی پر ایک دیا بھی نہیں۔ جن کے چراغوں سے جلا کرتے تھے اہل وطن
دئے جلتے ہیں ان کی قبر پر، جو بیچا کرتے ہیں شہیدوں کا کفن
Anil Narendra, Batla House Encounter,
Daily Pratap, Delhi Bomb Case, delhi Police, Digvijay Singh, Manmohan Singh,
Terrorist, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں