دہلی کی یہ جان لیوا آب و ہوا

دہلی میں پالوشن کا زہر دنوں دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حال ہی میں یہ معاملہ سنسد میں بھی اٹھاتھا جب انٹرنیشنل اسٹڈی کا حوالہ دیکر کہا گیا کہ راجدھانی میں روزانہ اوسطاً 80 اموت کے پیچھے کہیں نہ کہیں پردوشن ہی ذمہ دار ہے۔ یہی نہیں لمبے وقت تک پردوشن کے تعلق میں رہنے سے ڈی این اے تک میں بدلاؤ ہورہے ہیں۔ جس سے بچے کئی بیماریوں یا جسمانی گڑبڑیوں کے شکار ہورہے ہیں۔ دہلی والوں کی امیونٹی کمزور ہوئی ہے۔ پری میچیور ڈیتھ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ راجدھانی کی اس بگڑتی آب و ہوا کے تئیں دہلی ہائی کورٹ کی فکر بالکل مناسب ہے۔ عدالت نے زیادہ سے زیادہ پیڑ لگانے کی ہدایت دے کر دہلی واسیوں کو پیڑوں کی اہمیت بتائی ہے۔ساتھ ہی غیر مستقل عمارتوں کی وجہ سے ہو رہے پردوشن کے تئیں ہائی کورٹ کی فکرواجب ہے۔شہر میں بڑھ رہی گاڑیاں تو بڑھتے پردوشن کی وجہ ہیں ہی ایسے میں ان صنعتوں کا بھی بڑا حصہ ہے جو بنا مانیٹرنگ کے چل رہی ہیں۔ دہلی این سی آر میں ایسے چھوٹے بڑے یونٹوں کی تعداد2500 تک ہو سکتی ہے۔ صنعتی کچرا اور خراب سینیٹیشن بھی پردوشن کی وجہ ہے۔دہلی کے ہر علاقے میں تعمیری کام گذشتہ کچھ سال سے تیزی سے بڑھا ہے اس سے نکلنے والی دھول مٹی بھی ہوا میں زہر گھول رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایسی صنعتی یونٹوں کے پاس رہتے ہیں انہیں خطرہ زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پردوشن کے سمپرک میں لمبے وقت تک رہنے سے حاملہ خواتین و بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔پردوشت زرے خون میں گھل کر آکسیجن کا لیول کم کردیتے ہیں اس سے حمل میں پل رہے بچے کو بھی مناسب مقدار میں آکسیجن و تغذیہ بخش مادہ نہیں مل پاتا۔اس سے انہیں کئی طرح کی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف عدالتوں اور سرکار ہی ماحول کو لیکر چنتا کیوں کرے؟ کیا دہلی واسیوں کی اپنے شہر کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا انہیں اپنے شہر کی آب و ہوا بہتر کرنے کے لئے کچھ کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ حالانکہ دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ ہر سال لاکھوں پودے لگائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگلی علاقہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم پودے لگاتے ضرور ہیں لیکن انہیں بچائے رکھنے کی کوشش قطعی نہیں کرتے۔ صرف پودے لگانے سے کام نہیں چلے گا جب تک دہلی واسی پردوشن گھٹانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔ دہلی واسیوں میں بڑھتے پردوشن کے تئیں بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ جگہ جگہ ہوا کا معیار ناپا جانا چاہئے۔سبھی اگر سنجیدگی سے پردوشن روکنے کی کوشش کرتے ہیں تبھی دہلی کی آب و ہوا سدھرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!