کورونا وائرس کی جنگ کے درمیان جوانوں کی شہادت!

جہاں ایک طرف پورا دیش کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے میں لگاہوا ہے وہیں چھتیس گڑھ کے نکسلی متاثرہ ضلع سکمہ کے چنتا گندھا علاقے میں نکسلی حملے میں 17جوانوں کی شہادت میں پورے دیش میں غم کا ماحول پیدا کر دیا ہے ۔کورونا وبا سے لڑتے دیش میں یہ خبر بڑی سرخیاں نہیں بنیں یہ سب سے بڑا ماو ¿ وادی حملہ ہے ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ کئی گھنٹوں تک سکیورٹی کو یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ ان کے جوان کہاں تعینات ہیں ؟اتوار کو یومیہ ان کی تلاش کے لیے 500جوانوں کی ٹیم کو بھیجا گیا تھا ۔جنہوں نے جوانوں کی لاشیں برآمدکی ہیں ۔سکیورٹی فور س پر نکسلی حملے نے ایک بار پھر اس مسئلے سے مقابلہ کرنے کی چنوتی کو ایک بار پھر کھڑا کر دیا ہے اور سرکار کی کوششوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں ۔اکثر نکسلی اپنے گڑ ھ میں گھات لگا کر یا پھر سیدھے مڈبھیڑ میں سکیورٹی فورسز کو چنوتی دیتے ہیں اس سے مقابلہ کرنے کیلئے ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کی مشترکہ کوششیں چلتی رہی ہیں لیکن اس سمت میں کوئی امید سے زیادہ کامیابی نہیں مل پائی اکثر دیکھا جاتا ہے خفیہ مشینری اور سکیورٹی فورس کی تیاری ناکام ثابت ہوتی ہے ۔جتنی جانکاری ملی ہے اس کے مطابق سکمہ کے دنپا علاقے میں ماو ¿ وادیوں کے بھاری تعداد میں جمع ہونے کی اطلاع پر جمعہ کو یعنی 20مارچ کی شام کو الگ الگ کیمپوں سے تقریباً550جوان جنگل میں داخل ہوئے تھے ماو ¿ وادیوں کو اس کی بھنک لگ گئی اس لیے انہوں نے واپسی کے راسطے پر انہوں نے گھیرگھیر کر مارنے کا پلان بنا رکھا تھا ۔جوان الگ الگ سو ڈیڑ سو پر مشتمل ٹیموں میں چل رہے تھے ایک ٹیم ماو ¿ وادیوں کے چنگل میں پھنس گئی تصور کیا جاسکتا ہے کہ اچانک گولیوں اور بموں کے حملے میں پھنسے جوانوں کو معاملہ سمجھنے میں وقت لگاہوگا اور وہ بکھرے بھی ہوںگے کونکہ ماو ¿ وادی چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے اور ان کی تعداد 300کے آس پاس رہی ہوگی اور وہ بھاری پڑ گئے اور جوانوں کی مقابلہ کرنے میں گولیا ں ختم ہوگئیں حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی ماو ¿ وادی نا مرا ہو۔بہرحال ماو ¿ وادی جونوں کے ہتھار بھی لوٹ لے گیے کل ملا کر ماو ¿ وادیوں نے اپنے تازہ حملے سے صاف کر دیا ہے کہ ان کی طاقت ختم نہیں ہوئی ہے ۔چھتیس گڑھ میں نکسلی سرگرمیوں پر قابو نا پائے جانے کے پیچھے کچھ وجہیں صاف ہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔وہاں نکسلی گروپ مقامی حمایت کے وغیر اتنے لمبے سمیہ تک نہیں ٹک سکتے اس لیے ان کی حمایت کو ختم کرنے پر شروع سے زور دیا جاتا رہا ہے ۔اب مقامی لوگوں اورانتظامیہ کے درمیان بات چیت کا جو پل قائم کیاجانا چاہیے تھا وہ ٹھیک سے نہیں بن پایا ہے جب تک حکومتیں ان کمزور کڑیوں کو درست کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں اس مسئلے پر قابو پانا مشکل ہی رہے گا ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟