سات سال بعد نربھیا کی آتما کو ملا ہوگا سکون!

سات سال بعد نربھیا کی آتما کو ملا ہوگا سکون!
آخر کا ر بد قسمت سورگیہ نربھیاکو جمعہ کے دن چین کی نیند آئی ہوگی کیونکہ سات سال کے بعد اخر کا ر وہ دن آہی گیا جب نربھیا کے ساتھ گھناو ¿نی حرکت کرنے والے درندوں کو صبح ساڑے پانچ بجے تہاڑ جیل میں پھانسی کے پھندے میں لٹکا دیا گیا نربھیا اور ان کے گھر والوں کو انصاف ملا ۔قصورواروں کیلئے جمعہ کی رات خطرناک رہی اور وہ پوری رات سوئے نہیں بار بار جیل ملازمین سے پوچھتے رہے کیا کورٹ سے کوئی آرڈر آیا ہے ؟آخری لمحے میں وہ بچنے کی ہر کوشش کرتے نظر آئے اور اپنے وکیل سے ملنے ضد کرتے رہے ۔موت کی دہلیز پر کھڑے ہونے کے باوجود انہیں لگ رہاتھا کہ وکیل انہیں پھانسی سے بچا لیں گے لیکن ان کی تمنا پوری نا ہو پائی اور صبح ٹھیک ساڑے پانچ بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔اس موقع پر جیل انتظامیہ سے وابسطہ پچاس سے زیادہ افسر موجود رہے اور وہاں انہوں نے ایسے پختہ انتظامات کیے تھے کہ جن کے چلتے قصورواروں کو چیخنے چلانے کا بھی کوئی موقع نہیں ملا ۔جمعہ کو اندھیرے 3:15بجے ان چاروں قصورواروں کو ان کے سیل میں جگایا گیا اور یومیہ روٹین کے بعد انہیں نہلانے کو کہا گیا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں چائے کے ساتھ ہلکا ناشتہ دیا گیا اور یہ سب کچھ ہونے کے بعد انہیں سیل کے بعد پھانسی گھر کی طرف لے جانے کی کاروائی شروع کی گئی اور ان کو کالے کپڑے پہنائے گئے ان چاروں میں سے کسی نے بھی چائے نہیں پی ۔بتادیں پھانسی کے تخت پر پہونچنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے جاتے ہیںاور منھ پر جلاد کالا کپڑا پہناتا ہے۔ تاکہ قصور واروں انہیں کالے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر انہیں پھانسی گھر میں لے جایا گیا ۔اور اس کے بعد گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیتے ہیں اور ایک ہی جھٹکے میں جلاد لیور کھینچ دیتا ہے ۔پھندے کی رسی قصورواروں کے وزن کے حساب سے بنوائی جاتی ہے تاکہ جھٹکا لگتے ہی قیدی کی گرن کے ساتھ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے ۔اس سے پہلے دہلی کی تہاڑ جیل میں 2013میں افضل گورو کو پھانسی دی گئی تھی ۔بھارت میں قیدی کو پھانسی دینے کی روایت ہے لیکن پھانسی کاوقت الگ الگ ہوتا ہے زیادہ تر پھانسی 6سے 7بجے کے درمیان دی جاتی ہے لیکن نربھیاکے قصورواروں کا ڈیتھ وارنٹ جاری کرتے ہوئے صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی کا وقت مکرر کیاتھا اس کے پیچھے دلیل دی جاتی ہے کہ جیل میں بند اس وقت دیگر قیدی سوتے ہوتے ہیں اور وہیں پھانسی پر چڑھنے والوں کو پورادن انتظار نہیں کرنا پڑتا اسی لئے صبح سویرے پھانسی دی جاتی ہے ۔پھانسی کیلئے مقرر وقت پر متعلقہ قیدیوں کو پھانسی گھر لے جایا جاتا ہے اس دوران قاعدے کے مطابق جلاد کے علاوہ تین بڑے افسر جیل سپریم ٹینڈنٹ میڈیکل افسر ،مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں ۔پھانسی سے ٹھیک پہلے مجسٹریٹ قصورواروں کو پہچان بتانے کے بعد ڈیتھ وارنٹ پڑھ کر سناتا ہے جس پر پہلے سے ہی خطاکاروں کے دستخط ہوتے ہیں ۔16دسمبر 2012میں نربھیا کے ساتھ ہوئی درندگی کے ساتھ اس کی ماں بیٹی کیلئے لڑائی لڑتی رہی آخر کار ماں آشادیوی نے چاروں خطاکاروں کوپھانسی دینے پر تشفی جتائی ہے اور کہا کہ آخر کار نربھیا کو انصاف مل ہی گیا اور بیٹی کو تو وہ نہیں بچا پائے لیکن اس کے خطاکاروں کو انجام تک پہونچانے کیلئے لوگوں کے ساتھ مل کر جد و جہد کی آخر کار عدلیہ کی کوشش کے بعد ان کو انصاف مل گیا اب ان کی مہم آگے بھی جاری رہے گی اور جس طرح سے اس معاملے میں قصورواروں اور ان کے وکیل کے ذریعے طول دینے کی کوشش کی گئی وہ آگے کسی کے ساتھ نا ہو آشا دیوی نے بتایا جس دوارکہ اکثر دھام اپارٹمنٹ میںان کا خاندان رہتا ہے وہاں کے لوگوں نے 16دسمبر 2019سے ایک موم بتی جلانے کی مہم شروع کی تھی جو جمعرات کی رات آخری ثابت ہوئی جہاں ہم آشا دیوی کی نا ہمت نا ہارنے کے جذبہ کی قدر کرتے ہیں وہیں اب کے وکیل سوما کشواہا کی تعریف کرنا چاہیں گے جنہوں نے نربھیا کیلئے بنافیس سات سال سے زیادہ وقت تک ہمت نا ہارتے ہوئے مقدمہ کو صحیح انجام تک پہونچایا وہ نربھیا کے ساتھ ہوئی درندگی کے خلاف مظاہروں میں بھی شامل ہوئی ۔ان کا یہ پہلا مقدمہ بھی تھا ۔16دسمبر 2012کو نربھیا کیس کے وقت دہلی کے پولیس کمشنر رہے نیرج کمار نے بھی خطاکاروںکو پھانسی دینے پر خوشی ظاہر کی اور خیر مقدم کیا لیکن اس کیس کو ہمیں بھولنا نہیں چاہئے ۔ہمارے کرمنل انصاف نظام کی خامیوں کو دور کیا جانا چاہئے ۔ڈارک اسپوٹ ،سی سی ٹی پرائیویٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ ملازمین کی ویری فکیشن ،خواتین کے تئیں ذہنیت بدلنے کی مہم وغیرہ پر جو سفارشیں اس وقت ہم نے کی تھیں اس سمت میں دیش بھر میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندر کیجریوال نے کہا ہم سب لوگوں کو مل کر یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ دہلی اور دیش میںنربھیاجیسا گھناو ¿نا واقعہ دہرانا نہیں چاہئے ۔ہمارے سسٹم میں بہت خامیاں ہیں وہ غلط کام کرنے والو ں کو حوصلہ دیتی ہیں ۔پولیس کورٹ اور ریاستی حکومت ،مرکزی حکومت سب کو عہدکرنا چاہئے کہ ہم سب مل کر فوج داری نظام میں خامیوں کو دور کریں گے اور مستقبل میں کسی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیں گے اور نربھیاکیش میں جتنی تاخیر ہوئی ہے اس سے ہمارے نظام کی خامیاں اجاگر ہوئی ہیں ریپ اور ایسے گھناو ¿نے معاملوں میں قانون بدلنا ہوگا ۔اپیل در اپیل سسٹم کو بدلنا ہوگا یہ کام پارلیمنٹ کو کرنا ہے ناکہ عدالتوں کو عدالتیں تو قانون پر تعمیل کراتی ہیں جب تک قانون نہیں بدلا جائے گا تب تک وکیل ایم پی جیسے سرکردہ قانون کی لڑائی لڑنے والے ان کمیوں کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے معاملوں کو عدالت میں لٹکاتے رہیں گے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟