کورونا سے پہلے بھوک ہمیں مار دے گی!

ایک شخص علی حسن جس دوکان میں کام کرتے ہیں وہ بند ہو گئی ہے اور اب ان کے پاس کھانے اور گزر بسر کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔بھارت میں کورونا وائرس کے انفکشن کو روکنے کیلئے مکمل لاک ڈاو ¿ن نافذکر دیاگیا ہے ۔انتہائی ضروری کاموں کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کے لیے گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے لیکن روز مرہ کھانے کمانے والوں کیلئے اکیس دن گھر پر بیٹھنا ان کیلئے کوئی متبادل نہیںہے ۔بی بی سی کے نامہ نگار وکاس پانڈے نے ایسے ہی لوگوں کی زندگیوں میں جھانک کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آنے والے دن ان کیلئے کیا لے کر آنے والے ہیں ؟اتر پردیش کے نوئیڈا میں ایک چوراہا ہے جو لیور چوک کے نام سے جانا جاتا ہے عام طور پر اس جگہ پر کافی بھیڑ بھاڑ رہتی ہے دہلی سے لگے ہوئے اس علاقے میں گھر اور عمارتیں بنانے والے ٹھیکے دار ،مزدور ،یہاں لینے آتے ہیں ۔لیکن پچھلے اتوار کی صبح جب میں اس علاقے میں گیا تو یہاں سناٹا دیکھنے لائق تھا اس دن وہاں چڑیوں کا شور ہی عرصے بعد سننے کو ملا ۔اس سوال کے جواب میں کیا و ہ عوام کرفیو کی تعمیل نہیں کر رہے تو ایک شخص رمیش کمار جو یوپی کے باندہ ضلع کے باشندے ہیں بتاتے ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ اتوار کے دن ہمیں کا م دینے کے لیے کوئی نہیں آئے گا لیکن ہم نے سوچا کہ اپنی قسمت آزمانے میں کیا جاتا ہے ؟رمیش :ہم ہر روز چھ سو روپے کماتے ہیں اور اس سے مجھ گھر کے پانچ افراد کو پیٹ بھرنا ہوتا ہے ۔اگلے کچھ دنوںمیں جو کچھ گھر میں سامان ہے وہ ختم ہو جائے گا ۔مجھے کورونا وائرس کے خطرے کا پتہ ہے لیکن میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا الہ آباد کے باشندے رکشہ پولر کشن لال بتاتے ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن کے چلتے وہ پچھلے پانچ دنوں سے گھر بیٹھے ہیں رمیش کی طرح بھارت میں ایسے غریب افراد جو یومیہ اجرت پر زندگی گزر بسر کرتے ہیں وہ آج فاقہ کشی جیسے حالات کاسامنا کرنے کو مجبور ہیں حالانکہ اتر پردیش سے لے کر کیرل اور دہلی ریاست میں رمیش کمار جیسے مزدوروں کے کھاتے میں پیسے ڈالنے کا وعدہ کیا ہے وہیں مودی حکومت نے اس وبا کی وجہ سے پریشان حال یومیہ اجیر مزدوروں کو بھی مد د دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ان وعدوں پر عمل کے لیے سرکار کو کئی چیلنج کا سامنا کرنا پڑےگا ۔ان خاندانوں کی زندگی اسی نقدی پر ٹکی ہوتی ہے جسے پورے دن میں کما کر گھر لے کر آتے ہیں ۔ان میں سے کئی ایسے دوسری ریاستوں کے مزدور بھی ہیں یہ کام کرنے کیلئے اپنی آبائی ریاست سے دوسری ریاست میں آئے ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟مجبوراً کچھ مزدور خاندان پیدل ہی اپنے گاو ¿ں کی طرف چل پڑے ہیں کیونکہ اپنے گھر تک پہونچنے کا کوئی ٹرانسپورٹ کا ذریعہ نہیں ہے ۔کونکہ ٹرینیں اور بسیں بند ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟