دیش کے اونچے مجسمے چینی تیار کر دہ کیوں ہیں؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے تلنگانہ کی راجدھانی حیدرآباد میں کچھ دن پہلے گیارہویں اور بارہویں صدی کے مہان ہندو سنت راما نوج اچاریہ کی مجسمہ اسٹیچو آف اکولیٹی کی نقاب کشائی کی ۔ بارہ سے سولہ فٹ اونچی مورتی کا ڈیزائن بھلے ہی بھارت میں تیار کیا گیا ۔وہیں قریب سوا تین سال گجرات کے کیوڑیا میں لگی دنیا کی سب سے اونچے مجسمے اسٹیچو آف یونیٹی کو بنانے میں بھی چینی کمپنیوں کا اشتراک رہا ۔ دیش کے پہلے وزیر داخلہ سردار بھلبھ بھائی پٹیل کا یہ مجسمہ 797فٹ اونچاہے ۔سال 2017میں تلنگانہ حکومت نے ہندوستانی آئین کے اہم معمار ڈاکٹر بی آ ر امبیڈکر کے 125فوٹ اونچے تانبے کا مجسمہ لگانے کے ارادے سے تب کے نائب وزیر اعلیٰ شری ہریہر کی قیادت میں ایک ٹیم چین بھیجی تھی ۔ ایسے میں سوا ل اٹھتا ہے کہ بھار ت کے بڑے مجسمے قائم کرنے میں آخر چین کی مدد کیوں لینے پڑتی ہے؟ کیا انہیں بھارت میں ہی نہیں بنا یا جاسکتا؟تلنگا نہ میں لگنے والے امبیڈکر کے یہ مجسمہ آخر چین سے کیوں منگوایا گیا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی کمپنیوں کو بڑے مجسمے بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ انہیں تانبے کے مجسموں کو بنانے کیلئے دنیا میں ماہر مانا جاتاہے۔ چین میں ڈھلائی کے بڑے بڑے کارخانے ہیں جس کے چلتے مجسموں کے ٹکڑوں کو بہت کم وقت میں ڈھال کر انکی ڈیلیوری کر پا نا ممکن ہے۔ چین میں اسپرنگ ٹیمپل بدھا جیسے کئی بڑے مجسمے اس کی مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے مجسموں کیلئے ہر کوئی چین کی کمپنیوں کی طرف رخ کرتاہے ۔ ڈیزائن بھارت میں اور بنا وٹ چین میں ۔ بھارت میں مختلف دھاتوں سے مورتیا ں بنانے کا فن کافی پرانا ہے ۔یہاں سندھو وادی کی تہذیب کے دوران بنے تانبے کے مجسمے بھی ملے ہیں۔ بھارت دھات سے بنے دیوی دیوتاو¿ں کی مورتیاں بنائی جاتیں ہیں۔ بیرونی ممالک تک ان کو اکسپورٹ کیا جا تاہے حالاںکہ ان کا سائز زیادہ بڑا نہیں ہوتا اس لیے زیا دہ تر گھروں میں دیکھا جاتاہے ۔وہیں سیکڑوں فٹ اونچے مجسموں کو بنانے کیلئے خاص تکنیک اور ضرور ی سہولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔راجکمار جیسے مورتی سازوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں بنیادی اسٹرکچر کی کمی ہے اور اگر یہ پوری ہو جائے تو بڑے بڑے مجسمے بنائے جا سکتے ہیں۔مورتی کار ووڈیار نے بتایا کہ آرڈر دینے والے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بھارت کے مورتی کاروں کے پاس کروڑوں روپے کے بڑے پروجیکٹ شروع کرنے لائق ضروری مالی حیثیت ہے یا نہیں؟ ا س کے چلتے چھوٹی فرموں کیلئے آگے بڑھنا مشکل ہو جاتاہے ۔اس لئے ہمیں چین سے مجسمے بنوانے پڑ رہے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!