ٹوئیٹر اور مودی سرکار میں ٹکراو ¿!

سینٹرل الیکٹرونکس انفارمیشن ٹکنالوجی و وزیرقانون روی شنکر پرساد کے مطابق بھارت میں شوشل میڈیا کمپنیوں نے دوہرے پیمانے اپنا رکھے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب امریکہ کے کیپٹل ہل پر جھگڑا ہوتا ہے تو شوشل میڈیا وہاں کے صدر تک کے اکاو¿نٹ پر روک لگا دیتی ہے جمعرات کو راجیہ سبھا میں روی شنکر پرساد نے کہا کہ کیپٹل ہل کے واقعہ کے بعد ٹوئیٹر کی کاروائی کی حمایت کرتے ہیں ۔لیکن تعجب ہے لال قلعہ کے تشدد پر ٹوئٹر کا موقف الگ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر شوشل میڈیا کو غلط جانکاری اور جھونٹی خبریں پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے گا تو سرکار قانونی کاروائی ضرور کرے گی ۔یوم جمہوریہ پر دہلی کی سرحدوں پر آندولن کررہے کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ نکالی تھی جس کی وجہ سے راجدھانی کے الگ الگ حصوں میں تشدد کی وارداتیں دیکھنے کو ملی تھی لیکن سب سے زیادہ معاملہ لال قلعہ پر تشدد پر گونجا جس کے بعد سرکار نے ٹوئیٹر کو تقریباً 11سو اکاو¿نٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیاتھا سرکار کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اکاو¿نٹس خالصتانی حمایتیوں کے ہیں یا پھر کچھ ایسے لوگوں کے بھی ہیں جو کئی مہینہ سے کسان آندولن یا 26جنوری کے واقعہ کے بارے میں گمراہ کررہے ہیں ۔غلط خبریں اور جھونٹی خبریں دے رہے ہیں ۔حکومت کی ہدایت کے بعد ٹوئیٹر نے کچھ اکاو¿نٹ تو بلا ک کردئیے لیکن بعد میں کچھ کو بحال کر دیا ۔ٹوئیٹر کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ اس نے میڈیا سے جڑے لوگ صحافی اور سماجی کارکن اور سیاست دانوںکے اکاو¿نس پر کوئی کاروائی نہیں کی ۔بیان کے مطابق ہم اظہار رائے کی آزادی کی وکالت کرتے رہیں گے اور ہم ہندوستانی قانون کے مطابق اس کاراستہ نکال رہے ہیں لیکن وزیرشنکر پرساد نے کہا آپ جب ایک پلیٹ فارم بناتے ہیں تو آپ خود ایک قانون بناتے ہیں جس میں طے کیا جا سکے کیا صحیح ہے اور کیا غلط اگراس میں بھارت کا آئین اورقانون کی کوئی جگہ نہیں ہوگی تو یہ نہیں چلے گا ۔اور کاروائی ہوگی کانگریس ایم پی ششی تھرور نے ایک آرٹیکل میں کہا آج کا بیرونی ممالک کے اخبارات بھارت میں آندولن کررہے ہیں اور کسانوں پر زیادتی ، انٹرنیٹ پر پابندی اور صحافیوںکے خلاف ملک سے بغاوت کے معاملے بھرے پڑے ہیں ۔اس سے دیش کی شاخ خراب ہورہی ہے ۔ٹوئیٹر کے بیان پر بینگلورو سے بی جے پی ایم پی تیجسوی سوچی کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹوئیٹر خود کو بھارت کے قانون سے اوپر سمجھ رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ٹوئیٹر اپنی سہولت کے مطابق چن رہا ہے ۔کونساقانون بنے گا اور کونسا نہیں اس تازہ جھگڑے کو لیکر شوشل میڈیا پر کافی رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے لوگ اس تنازعہ کو لیکر سرکار کے حق میں اور احتجاج میں پوسٹ کررہے ہیں سائبر قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹوئیٹر کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اسے بھارت کے قانون کے حساب سے ہی چلنا پڑے گا امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کےخلاف ٹوئیٹر نے خود ہی کاروائی کی ہے جبکہ بھارت میں سرکار کو حکم جاری کرنا پڑا لیکن ٹوئیٹر نے کیا کیا پہلے اکاو¿نٹ معطل کئے پھر ان کو بحال کر دیا وہیں کانگریس کے نیتا نوجوت سنگھ سدھو نے تنازعہ پر ٹوئیٹر سنسر شپ کے اٹیک کے ساتھ لکھا کہ کیا لکھوں قلم اکڑ میں ہے کیسے لکھوں ہاتھ تانا شاہ کی پکڑ میں ہے ۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ سرکار جو کررہی ہے وہ صرف اپنی نکتہ چینیوں کو روکنے کے لئے کررہی ہے اور نکتہ چینی کرنے والوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ سرکار کےخلاف کچھ نا بول سکیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!