آئی ایس اپنا رہا ہے دہشت گردی کے نئے نئے طریقے

اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کی دہشت کی نئی حکمت عملی کے سبب اب چھوٹے شہر، قصبات اور علاقے خطرے کی زد میں آگئے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق24 مہینے میں دنیا بھر میں آئی ایس کے 51 فیصدی حملے ایسے مقامات پر ہوئے ہیں جنہیں پہلے کبھی بھی دہشت گردی کے لحاظ سے خطرناک نہیں مانا جاتا تھا۔ سب سے تشویش کی بات یہ ہے کہ آئی ایس دو سال پہلے جہاں ہر 21 دن میں حملہ کرتا تھا وہیں اب وہ2016 ء میں ہر 7 دن میں ایک حملہ کو انجام دے رہا ہے۔ دہشت گردی پر دنیا بھر کی نگاہ رکھنے والی امریکی تنظیم ’’انٹر سیپٹر‘‘ کی تازہ اسٹڈی رپورٹ کے مطابق اس نے اپنے ڈیٹا بیس میں 24 ماہ میں درج ہوئے 73 آتنکی حملوں کا تجزیہ کیا ہے۔ تجزیئے کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ آئی ایس اب آتنکی حملوں کی جگہ اور طریقے بدل رہا ہے۔ پہلے یہ تنظیم زیادہ تر ہائی پروفائل علاقوں میں حملے کیاکرتی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایسے علاقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے کافی وسائل موجودتھے۔ اب چھوٹے قصبوں کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہے کیونکہ یہاں دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے پختہ بندوبست نہیں ہیں۔ وقت بدلنے کے باوجود کچھ بنیادی چیزیں نہیں بدلی ہیں۔ کوئی خطرناک بندوقچی یا پھر فدائی دستے کے چند لوگ ایسے جرائم کو انجام دیتے ہیں کہ ساری دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ ایسے حملوں میں اکثر اے ۔ کے۔47 معیار کی رائفلیں ہوتی ہیں۔ چلانے میں آسان یہ اسالٹ رائفل ماضی گزشتہ میں سوویت یونین کی دین ہے اور دنیا بھر میں کثرت سے دستیاب ہے۔ اس کے ذریعے کچھ لوگوں کا گروپ بھی سینکڑوں لوگوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ 
جدید فوجی اور پولیس فورس کے لئے بھی چیلنج ہے۔ حالیہ برسوں میں دہشت پھیلانے والوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف رائفل کے جواب میں لائی گئی امریکہ۔ اے آر ۔15 رائفلیں بھی آچکی ہیں۔ حالیہ حملوں میں پھر دکھایا گیا ہے کہ اکیلا آدمی بھی کس طرح قہر برپا سکتا ہے۔نیس کاحملہ اس کی مثال ہے۔ آتنکی تنظیم نے وولف اٹیک کرنے کو بھی کہا ہے۔ دراصل سی آر تاک لگا کر اکیلے حملہ کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں ایسا آئی ایس نے یہ پہلی بار نہیں کیا ہے۔ القاعدہ دہشت گردوں پر کنٹرول کے لئے جب مختلف حکومتوں نے حملے تیز کئے اور ان کی طاقت کمزور پڑنے لگی تب اس نے بھی اس طرح کے حملہ کرنے کے لئے اپنے حمایتیوں کو اکسانا شروع کردیا۔ بھارت اور دنیا بھر کی ڈیفنس ایجنسیوں کے لئے یہ طریقہ تشویش پیدا کرنے والا ہے۔ ایسے حملے کرنے والوں کی پہچان پہلے سے کرنا اور ان کی سازش کا اندازہ مشکل کام ہے۔ کوئی بھی سرپھرا کبھی بھی اس طرح کا کام کرسکتا ہے۔ جہادی دہشت گردوں کی اب تک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ حملے جغرافیائی سرحدیں توڑ رہے ہیں۔ اب کوئی شہر ،قصبہ ،گاؤں ان دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں رہ گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟