فیصلے کے بعد کیا ٹکراؤ کے حالات بند ہوں گے

دہلی ہائی کورٹ کے قومی راجدھانی علاقہ دہلی کی آئینی پوزیشن واضح کر دینے کے بعد صاف ہوگیا ہے یہ ایک مرکز کے زیر انتظام ریاست ہی ہے اور لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کے ایڈمنسٹریٹیو چیف ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں کچھ بھی نیا یا چونکانے والا نہیں ہے پھر بھی اگر وزیر اعلی اروندر کیجریوال کہتے ہیں کہ وہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے ،(پتہ چلا ہے کہ سرکار چلی گئی ہے اور سپریم کورٹ نے اپیل کو سماعت کے لئے منظور کرلیا ہے)ظاہر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دہلی کے چنے ہوئے نمائندے ہیں۔ دہلی سے متعلق فیصلے کرنے کا انہیں حق ہے۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے دہلی کو مرکز کے زیر انتظام ریاست ہونے کے ثبوت کی تصدیق کردی ہے اور اسی بنیاد پر ، متعلقہ آئینی تقاضوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر ہی ایڈ منسٹریٹو چیف ہے اور وہ مکھیہ منتری یا ان کی کیبنٹ کی صلاح ماننے کو مجبور نہیں ہے۔ یہی نہیں ہائی کورٹ نے یہاں تک کہا ہے دہلی سرکار کو حکم پاس کرنے کے لئے ان معاملوں میں بھی لیفٹیننٹ گورنر کی رائے لینی ہوگی جو اسمبلی کے تحت آتے ہیں۔ظاہر ہے ہائی کورٹ کا فیصلہ وزیر اعلی اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان سارے نکتوں پر فیصلہ دے دیا ہے جو دہلی سرکار اپیل میں لے کر عدالت گئی تھی۔ اس فیصلے کا لب و لباب یہی ہے کہ آئین کی دفعہ 239 اے اے جوڑنے سے دہلی کے مرکزی ریاست ہونے کی پوزیشن میں فرق نہیں آتا۔ اسے دیگر مرکزی ریاستوں سے زیادہ خاص اختیار ضرور دئے گئے ہیں لیکن یہ عام ریاستوں کی طرح نہیں ہے۔ پبلک سسٹم ، زمین ، قانون و نظام، سروس دہلی سرکار کے ماتحت نہیں ہے جن معاملوں میں اسے حق ہے ، اس میں بھی لیفٹیننٹ گورنر کی مرضی سے اسے کام کرنا ہے۔ اصل میں کیجریوال قانونی لڑائی کے ساتھ ہی دہلی کو مکمل ریاست بنائے جانے کے مسئلے کو سیاسی لڑائی طرح پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر فی الحال وہ قانون کے ساتھ ہی سیاسی مورچے پر بھی پست ہوگئے ہیں۔ مثلاً اس فیصلے نے صاف کردیا ہے کہ دہلی کی ریاستی حکومت کو بغیر لیفٹیننٹ گورنر کے نہ تو انکوائری کمیشن کا اختیار ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی ساز فیصلہ لے سکتی ہے۔اس فیصلے کے بعد کیجریوال سرکار کے وہ سارے فیصلے و قدم غیر آئینی ہوگئے ہیں جو انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر کی رضامندی اور اجازت کے بغیر اٹھائے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف قانونی ہی نہیں بلکہ سیاسی شکست بھی ہے اس سے دہلی ضلع کرکٹ ایسوسی ایشن (ڈی ڈی سی اے) کے مبینہ کرپشن جس میں نشانے پر وزیر مالیات ارون جیٹلی تھے ، اور ڈی ٹی سی بسوں میں سی این جی کٹ لگانے سے متعلق مبینہ گھوٹالہ ، جس میں سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت نشانے پر تھیں کی جانچ کے لئے قائم دونوں کمیشن بے معنی ہوگئے ہیں۔ عدالت نے صاف کہا ہے کہ جانچ بٹھانا دہلی سرکار کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اس لئے کیجریوال اس کے ذریعے سے جو سیاسی لڑائی لڑنے کی کوشش کررہے تھے وہ ناکام ہوگئی ہے اور اس کی تکلیف ان کے اندر ہوگی۔ دہلی کی عوام نے جن توقعات اور امیدروں سے عام آدمی پارٹی کو شاندار اکثریت دی تھی اسے پورا کرنے کے لئے لیفٹیننٹ گورنر و مرکزی سرکار کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ہی کیجریوال کی ٹیم کی سمجھداری ہے اسے غیر ضروری ٹکراؤ سے بچنا چاہئے۔ تازہ فیصلہ کے پس منظر میں یہ توقع کرنی چاہئے کہ مرکز کی مودی سرکار بھی بڑکپن دکھائے گی اور تعاون اور فیڈرل ازم کے اپنے نظریئے کے مطابق عاپ کی حکومت کے دائرے میں آنے والے سیکٹروں میں غیر ضروری مداخلت نہیں کرے گی۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!