پُلوں پر ایسے حادثے ہوتے رہے ہیں

مہاراشٹر میں ساوتری ندی پر بنے پل کے بہنے سے ہوئے حادثے نے دیش میں پل ۔ پلین کی سکیورٹی پر نئے سرے سے سوال کھڑے کردئے ہیں۔ دیش میں ہزاروں ریل سڑک پل ہیں جو اپنی میعاد پوری کرچکے ہیں یا اتنے خستہ حالت میں ہیں کہ کبھی بھی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ممبئی۔ گوا شاہراہ پر واقع مہاڑ میں منگلوار کودیر رات ایک پرانا پل گرجانے سے تغیانی سے لبریز ساوتری ندی میں کئی گاڑیاں بہہ گئیں۔ اس میں مہاراشٹر اسٹیٹ کارپوریشن کی دو بسیں لاپتہ ہوگئیں جس میں22 لوگ سوار تھے۔ پل 100 سال پرانا تھا جو انگریزوں نے بنایا تھا۔ حالانکہ وہاں اس کی برابر میں دو اور پل تھے۔ ان میں سے ایک نیا پل تھا جبکہ دوسرا انگریزوں کے زمانے کا تھا۔ پرانا والا پل ٹوٹا ہوا ہے۔ اکیلے مہاراشٹر میں ہی نہیں ایسے پرانے پل اترپردیش، المد گھاٹی، پل بستی110 سال پرانا ہے اور لمبے عرصے سے خستہ حالت میں ہے۔ دو دہائی سے بھاری گاڑیوں کے اس پر سے گزرنے پر روک لگی ہوئی ہے۔ اتراکھنڈ میں رڑکی میں سولانی ندی پر بنا پل 170 سال پرانا ہے۔ دو سال پہلے اس پر بڑی گاڑیوں کے گزر پر روک لگی ہوئی ہے۔ 50 ۔پلیا برٹش عہد کی ہے لیکن فی الحال ان میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیرتی نگر اور دگڑا پل کی جگہ پر نئے پل بنائے جاچکے ہیں۔ 
نئے پل جھارکھنڈ میں برہی ندی پر بنا پل خستہ حالت میں ہے۔ یہ ہزاری باغ کو ایم ایچ 31 کے ذریعے دیش کو جوڑتا ہے۔ یہ پل 1907ء میں بنا تھا۔1911 میں پلامو ندی پر بنا پل کروڑوں روپے خرچ کے بعد بھی ایک لائن والا ہے۔ رائے گڑھ کے مشہور تیرتھ استھل رجک دھا میں بھیروی ندی پر بنا پھلکا پل بدھوار کو پانی میں بہہ گیا جس میں 4 خواتین بہہ گئیں اور 3 کو بچا لیا گیا جبکہ 1 کی موت ہوگئی۔ پیشے سے انجینئر اور رائے گڑھ ضلع کے باشندے ستیوگ سیٹھ نے الزام لگایا کہ ندی میں ہونے والی ناجائز بالو کی کھدائی سے پل کی بنیاد کمزور ہوئی ہے اور پل ڈھے گیا۔ اس ناجائز کھدائی کی شکایت کئی بار انتظامیہ سے کی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بہار میں بھی ایسے درجنوں پل ہیں جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں ۔ وہاں بھی کبھی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی سرکار پورے دیش میں سروے کرائے اور ایسے خطرناک پلوں کی مرمت کرائے اور متبادل سسٹم پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ریاستوں کو بھی اس طرف بلا تاخیر توجہ دینی چاہئے۔ بیشک حادثے کے بعد ہم راحت رسانی کاموں میں تو لگ جاتے ہیں مرنے والوں کو معاوضہ بھی دے دیتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہمیں در رس مستقبل حل تلاشنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!