حد بندی کمیشن کی سفارشوں میں مچا واویلا!

جموں کشمیر میں جلد سیاسی عمل شروع ہونے کے امکان پر حد بندی کمیشن کی تجا ویز نے گر می پید ا کر دی ہے ۔ اس نے ریا ست کی سیا ست کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے اس میں ایک حصہ جموں ہے جس کے نیتا ابھی بھی کم حصہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف کشمیر ی لیڈر و کشمیر کے سیا سی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ تجویز کشمیر کے چنا وی نقشے کو بدل کر رکھ دے گی جو کشمیر یوں کو منظور نہیں ہوگی در اصل حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی سیٹو ں کو نئے سرے سے تعین کر نے کے مقصد سے تشکیل جموں خطے میں چھ مزید سیٹیں اور کشمیر وادی میں ایک فاضل سیٹ کی تجویز رکھی ہے۔ نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی سمیت کشمیر کے تقریباً ہر ایک سیا سی پارٹی نے ان تجا ویز کی مخالفت کرنا شروع کر دی ہے۔کمیشن نے پیر کو دہلی میں ہوئی میٹنگ میں سبھی ممبران کے ساتھ اسمبلی میں سیٹوں کے الاٹمنٹ کی نئی تجاویز کو شیئر کیا ہے ۔سبھی سے 31دسمبر تک رائے مانگی گئی ہے ۔جموں کی 37سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 43 ہو جائےگی اور کشمیر کی 46سے بڑھ کر 47ہو جائے گی مقبوضہ کشمیر کیلئے الگ سے 24سیٹیں ریزرو ہیں ۔ نیشنل کانفرنس کے نیتا اور سا بق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا کہ سیٹوں کا یہ الاٹمنٹ 2011کی مر دم شماری کی بنیا د پر نہیں کیا گیاہے ان کا الزام ہے کہ کمیشن بھاجپا کے سیا سی اجنڈ ے کا آگے بڑھا رہا ہے۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ حد بندی آئینی نقطہ نظر سے کی جائے گی لیکن یہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ کمیشن نے اسوسی ایٹ ممبر و نیشنل کانفرنس کے لیڈر حسنین مسعو دی کا کہنا کہ انہوں نے حد بندی کمیشن سے کہا کہ جس جموں وکشمیر دوبارہ تشکیل ایکٹ کے تحت حد بندی کی جارہی ہے اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے ایسے میں اس کے خلاف فیصلے کیسے لئے جا سکتے ہیں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا کہ کے کمیشن کو لیکر ان کے خدشا ت صحیح نکلے لو گوں کو مذہبی اور صو بائی بنیا د پر بانٹ کر لوگوںکوسیا سی مفا دات کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ حد بندی کے قواعد کے مطابق اسمبلی سیٹوں کا دوبارہ تعین آبادی کے بنیا د پر ہونا چاہئے ۔2011کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی 68.8لاکھ اور جموں کی آبادی 52.5لاکھ سے 15لاکھ زیا دہ ہے اسی وجہ سے جموں وکشمیر اسمبلی میں کشمیر 46سیٹیں تھیں اور جموں کی 37ان کے علاوہ لداخ کی 4سیٹیں تھی ۔ 2019میں ریا ست کا درجہ ختم کر دیا گیا اور جموں وکشمیر و لداخ نام سے دو الگ الگ مر کزی حکمر اں ریا ستیں بنا دی گئیں لیکن نئی تجویز کے مطابق آبادی کے اعداد وشمار اتنا فرق ہونے کے باوجود جموں میں کشمیر سے 4سیٹیں ہی کم رہ جائےں گی اور اسمبلی میں جموں کی نمائندگی بڑھ جائے گی ۔حد بندی پر رضا مندی بنانی ضروری ہے تاکہ سیاسی عمل جلد شروع ہو سکے کشمیر کے حالا ت پہلے سے ہی نازک ہیں ایسے میں کوئی بھی فیصلہ جس سے یہاں کا ایک طبقہ ٹھیک نہ مانے حالات کو بہتر بنا نے میں مدد گا ر ثابت نہیں ہو سکتاہے۔ اس لئے حد بندی کے معاملے کشمیر او ر جموکے علاقوں کے نمائندوں اور عوا م کا اعتما د حاصل کرن بہتر ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!