فوجی تعطل کے درمیان نیاسرحد اراضی قانون !

اپنی فروغ پسند پالیسیوں سے بعض آنے سے کیسے بعض رہ جانے کے بجائے تین پڑوسیوں کو پریشان کرنے کی پالیسی پر پوری طرح سے آگے بڑھ رہا ہے اسی سلسلے میں وہ نیا سرحداراضی قانون (لینڈ باو¿نڈری قانون )لیکر آیا ہے جو پڑوسی ممالک کے ساتھ ترقی پذیر علاقوں پر مرکوز ہے ، بھارت نے چین کی اس حرکت پر سخت اعتراض جتایا ہے اس قانون سے پہلی نظر میں ہی صاف ہو جاتا ہے کہ وہ جس زمین پر قدم رکھے گا وہ اسی کی ہو جائے گی یہ نیا قانون یکم جنوری 2022سے نافذ ہو جائے گا ۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ چین نے یہ پیترا ایسے وقت میں چلا ہے جب بھارت کے ساتھ اس کا جھگڑا چل رہا ہے اسے لیکر اکثر ٹکراو¿ اور کشیدہ حالات بنتے جا رہے ہیں چین کا دعویٰ ہے اپنی سرحد سے لگتے چودہ ملکوں کے ساتھ سر حدی تنازع سلجھا لیا ہے ایسے میں بھارت اور بھوٹا ہی بچے ہیں جن کے ساتھ تنازع کا حل نکالا جانا ہے ۔ غور طلب ہے کہ بھوٹا ن کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع زیادہ پیچیدہ ہے وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ٹکراو¿ سے اسے الجھا دیا گیا ہے ایسے میں نیا قانون کا استعمال کیسے اور کب کرے گا اس میں کوئی شبہ نہیں ہو نا چاہئے بھارت نے بدھ کو کہا کہ چین کو سر حدی متنازع علاقوں میں یکطرفہ تبدیلی کرنے کے لئے اپنے نئے سر حدی قانون کا استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ چین نے 23اکتوبر کو یہ نیا قانون پاس کیا ہے اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اراضی سر حد معاملوں پر چین دوسرے ملکوں کے ساتھ ہوئے یا مشترکہ طور سے منظور کئے گئے معاہدوں کی تعمیل کرے گا ۔ اس میں سر حدی علاقوں میں ضلعوں کی دوبارہ تشکیل کی سہولت ہے یہی بھارت کے اعتراض کی اہم وجہ ہے بھارت اور چین نے سر حد سے متعلق سوالوں کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا ہے اور دونوں فریقین نے یکسانیت پر مبنی غو ر خوض کی بنیاد پر منصفانہ طور پر دونوں فریق نے قابل قبول حل نکالنے پر اتفاق رائے اظہار کیا ہے بھارت کی اصل تشویش لائن آف کنٹرول کے لداخ سیکٹر میں فوجی تعطل کے پس منظر میں ہے خیال رہے کہ اس سے پہلے وہ اسی سال کی شروعات میں سمندی سر حد کو لیکر بھی ایسا ہی دعویٰ کرنے والا ساحلی نگرانی قانون پاس کر چکا ہے ۔ بتایا تو یہ جا رہا ہے کہ اراضی سے متعلق سرحدی قانون افغانستان میں طالبان کے کنٹرول اور کوویڈ سے پیدا حالات کو ذہن میں رکھ کر لایا گیا ہے کہ اندیشہ جتایا جا رہا ہے کہ افغانستان سے مسلم شدت پسند سر حد پار کرکے جن شیانگ صوبے میں داخل ہو سکتے ہیں اور ایغور مسلمانوں سے مل سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ چین کی چودہ ممالک کے ساتھ 22ہزار کلومیٹر لمبی سر حد سے جس سے بارہ دیشوں کے ساتھ سر حد سے متعلق مسئلے سلجھانے کے دعویٰ کئے گئے ہیں چین کے اراضی سر حد قانون سے متعلق سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ یہ قانون ایسے وقت آیا ہے کہ جب مشرقی لداخ میں کنٹرول لائن پر تعطل قائم ہے اور حال ہی میں اس نے ایک بار پھر اروناچل پردیش کا اشو اٹھانے کی بھی کوشش کی تھی ۔بھارت اپنے علاقائی سالمیت اور سرداری کو لیکر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتا ، لیکن اس کے ساتھ ہی چین کی ان نئی سر گرمیوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی دوستانہ ماحول کے لئے قانون کی نہیں بلکہ اچھے پڑوسی اور میل جول کے جذبے کی ضرورت ہے جو اس میں نہ پہلے کمی رہی اور اب دکھائی دے رہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!