معاوضہ نہیں دے سکتے !

سپریم کورٹ نے پیر کو مرکزی حکومت سے سوال کیا وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی ایم اے نے کوویڈ 19-سے مرنے والوں کے کنبوں کو چار لاکھ ایکس کریشیا رقم دینے کا فیصلہ کیا تھا بڑی عدالت نے کہا فائدہ اٹھانے والوں کے دل میں کسی بھی طرح کا ملال دور کرنے کے لئے یکساں معاوضہ اسکیم تیار کرنے پر غو ر کیا جا سکتا ہے کورونا انفیکشن سے مرنے والے لوگوں کے ورثا کو چار چارلاکھ روپئے کا معاوضہ مل پانا اب ممکن نہیں ہوگا مرکز کا کہنا ہے کہ کورونا کے سبب کئے جا رہے انتظام اور و ٹیکس محصول میں کمی کے سبب مرکز اور ریاستی حکومتیں شدید مالی قلت کے دور سے گزر رہی ہیں اور کورونا انفیکشن سے مرنے والے سبھی لوگوں کے ورثا کو معاوضہ دینے سے سرکاری خزانے کے وسعت سے باہر کی بات ہے ۔ حالانکہ مرکز نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہے مرکزی حکومت نے کہا کہ ہم ہیلتھ سروس سسٹم بنانے اور سبھی کو کھانا یقینی کرنے و پوری آبادی کو ٹیکہ لگانے اور معیشت کو مالی فروغ پیکیج دستیاب کرانے کے لئے رکھے گئے فنڈ کے بجائے دیگر چیزوں کے فنڈ کااستعمال کر رہے ہیں جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایم آر شاہ کی ویکیشن بنچ نے سوالی سیٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ آپ (مرکز صحیح صفائی دے رہا ہے )کیونکہ مرکز کے پاس پیسہ نہیں کہ دلیل دینے سے وسیع مضر اثرات ہونگے مرکز نے مانا کہ کورونا سے اب تک 3.85لاکھ لوگوں کی جان جا چکی ہے اس لئے ان کے لئے 22,184کروڑ روپئے کا معاوضہ دیا گیا تو اسٹیٹ ڈیجاسٹر رسپانس فنڈ کم پڑ جائے گااور دیگر آفات سے نمٹنے کے لئے پیسہ نہیں بچے گا۔ مرنے والوں کی تعداد ابھی بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے یہ تو ماننا پڑے گا کہ سرکار کے پاس محدود ذرائع ہیں ان پر فاضل بوجھ آپ ویلفیئر و ہیلتھ اسکیموں کے فنڈ کو کم کر دے گا مرکز نے سپریم کورٹ میں دیئے گئے حلف نامے میں کہا کہ تشریح کرنا کہ ایکس گلیشیا رقم سے ہی کسی متاثر کی مدد کی جا سکتی ہے یہ پرانا اور دکیا نوس نقطہ نظر ہوگا ۔ مرکزی حکومت نے کہا کورونا وبا زلزلہ یا سیلاب کہ طرح ایک وبا نہیں ہے جس کے لئے متاثرہ کو صرف پیسے سے معاوضہ دیا جاسکتا ہے مرکز نے کہا آفت قانون کے تحت ضروری معاوضہ صرف قدرتی آفات جیسے زلزلہ ، سیلاب وغیرہ پر ہی نافذ ہوتا ہے ۔ لمبی میعاد کی کسی بھی آفت کو مہینوں اور برسوں تک چلے میں ایکس گریشیا رقم دینے کا کوئی سابقہ مثال نہیں ہے حقیقت میں بھارت جیسے بہبودی دیش میں سرکاروں کا اصل امتحان قدرتی آفات اور ضرورتوں کے وقت ہی دینی ہوتی ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ وبا سیلا ب یا زلزلے جیسی آفت نہیں ہے اور ڈیڑھ سال گزر جانے کے با وجود ابھی یہ وبا ختم نہیں ہوئی ہے بے شک دیش میںدوسری لہر کا اثر کا اب کم ہوگیا ہے نتیجتاً انفیکشن کے نئے میرض پچاس ہزار سے کم ہوگئے ہیں مگر دوسری اور اب تک کے 3.85لاکھ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں متاثرہ کنبوں میں بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جن کے لئے زندگی گزر بشر کا مشکل گھڑی ہوگئی ہے ایسے میں مرکز اور ریاستی حکومتیں کم سے کم ایسے خاندانوں کی پہچان کر کے ان کے لئے کوئی انسانیت کے ناطے ہمدردانہ پہل ضرور کی جانی چاہئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!