سپریم کورٹ کے دروازے پر اقوام متحد ہ انسانی حقوق کمیشن

شہریت ترمیم قانون( سی اے اے )کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں کی سماعت سے پہلے اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن دفتر نے عدالتی انصاف دوست کی شکل میں مداخلت کرنے کی جو درخواست بڑی عدالت میں داخل کی ہے ۔وہ نہ صرف ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں اس طرح کی پہلی مثال ہے بلکہ اسے اقوام متحدہ کے ذریعہ غیر ضروری مداخلت کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے ۔سی اے اے کے مسئلوں کو لے کر اقوام متحدہ انسانی حقوق کمشنر مشل ویچلٹ جیریا نے مودی سرکار کو بین الا اقوامی قانون اور آئینی بنیاد پر کٹ گھرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے ۔بڑی عدالت کے ذریعہ اقوام انسانی حقوق کمیشن اس مسئلے پر ایک انصاف دوست کے طور پر اس کی کارروائی میں شامل ہونا چاہتا ہے حالانکہ اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے ۔لیکن وزارت خارجہ نے اس مسئلے پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اس پر فیصلہ حالانکہ سپریم کورٹ کو لینا ہے لیکن اس سے پہلے بھارت کے وزارت خارجہ نے فطری طور پر سخت ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ دیش میں شہریت ترمیم قانون بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور دیش کی سرداری سے جڑے مسئلے پر کسی تیسرے فریق کا کوئی دائر اختیار نہیں بنتا اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن نے حالانکہ سی اے اے کی پوری طرح مخالفت تو نہیں کی ہے لیکن اس نے کچھ لوگوں کو مذہبی بنیاد پر اذیت پہنچانے کے لئے سی اے اے کے مقصد پر انگلی اُٹھائی ہے ۔لیکن اذیت کے شکار مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کا اشو بھی اس نے اُٹھایا ہے ۔دراصل پچھلے اگست میں جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370ہٹائے جانے کے بعد سے ہی پاکستان نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں میں بھارت کے خلاف مہم چھیڑی تھی لیکن اسے کامیابی ملی اس کے بعد سے ہی مغربی ممالک اور کچھ اداروں کے ذریعہ بھارت کے اندرونی معاملوں مداخلت کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی دائر عرضی بھی اسی کا حصہ ہے ۔ہائی کمشنر جیریا کا یقین ہے کہ بھارت کے سپریم کورٹ کی غیر جانبداری اور آزادی کو لے کر اس کے من میں کافی احترام ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ بھارت میں اب تک جن بین الا اقوامی انسانی حقوق معاہدوں پر دستخط کئے ہیں وہ سی اے اے ان عالمی انسانی حقوق پیمانوں کی برابری کے اصولوں کے خلاف ہے ۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نان ڈیفالٹ مینٹ کے اس اصول سے بندھا ہے جس کے مطابق اذیت کے شکار ہو کرآئے اس شخص کو اس ملک میں نہیں بھیجا جا سکتا جہاں سے وہ آیا ہے ۔کہہ سکتے ہیں کہ بین الا اقوامی ایجنسی کے ذریعہ اُٹھایا گیا یہ قدم حیرت انگیز ہے تو قع کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ اس عرضی کو خارج کر دے گا ۔حقیقت میں کسی بھی مسئلے پر انصاف دوست کی تقرری سپریم کورٹ کے دائر اختیار کے تحت ہے ۔اوپر سے کوئی نہیں تھوپ سکتا ۔اگر یہ عرضی منظور کر لی جاتی ہے تو کسی بھی متنازعہ اندورنی مسئلے پر اقوام متحدہ اور اس کے معاون ادارے انصاف دوست بننے کی کوشش کریں گے ۔جس کا بھارت کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں دے سکتا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟