بربادی کے دہانے پر پہنچا یس بینک

چھ مہینے بھی نہیں گزرے کہ پی ایم سی بینک گھوٹالے کے بعد اب پرائیوٹ سیکٹر کے دوسرے یس بینک کا جو حال سامنے آیا ہے اس نے کھاتے داروں کی نید اُڑا دی ہے ڈوبنے کے دہانے پر پہنچے یس بینک کے گراہک بھی اب اسی پریشانی میں ڈوبے ہیں ۔جو پچھلے کئی مہینوں سے دیش کے ہر بینک گراہک کو کھائی جا رہی ہے ۔یس بینک کے مشکل کے پھنسنے سے اس کے گراہکوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ۔اور بد حواس حالت میں کھاتے دار بینک کے اے ٹی ایم پر پہنچ رہے ہیں ۔لیکن پیسہ نہیں نکل رہا ہے ۔برانچوں میں کھلبلی مچ رہی ہے ۔وہاں بھی نہ پیسے دیئے جا رہے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا کام ہو رہا ہے گراہکوں کو اپنے پیسے ڈوبنے کا ڈر ستار ہا ہے ۔ریزرو بینک کے ذریعہ یس بینک کے ڈائرکٹر بورڈ کو توڑ دیا گیا ہے اور اس پر پابندی لگا دینا اور بینک کے بحران میں مبتلا ہونے کے معاملے تک محدود نہیں ہے بلکہ دیش کے چوتھے سب سے بڑے پرائیوٹ بینک کا یہ حال دیش کے بینکنگ سیٹر کو سنگین بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ریزرو بینک کو پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر پابندی لگانی پڑی ہے تو یہ بات عام نہیں ہے ۔معیشت کو بہتر چلانے میں بینک سب سے اہم ترین رول نبھاتے ہیں لیکن حالایہ برسوں میں ایک کے بعد ایک بینک کا مالی بحران میں پھنسنا ہماری معیشت کی سنگین بیماری کا ایک اثر ہے یس بینک پر پابندی لگ جانے سے اس کی شاخوں اور اے ٹی پر حیران پریشان گراہکوں کی لمبی لمبی قطاریں ہیں ۔ایک مشت پچاس ہزار تک کی نکاسی کی سہولت کے باوجود لوگوں کو نہ تو پیسہ مل رہا ہے بلکہ خدشات الگ ہیں یہ چھ مہینے پہلے ہی پی ایم سی پر مرکزی بینک کی پابندیوں کے بعد ایسے ہی مناظر سامنے آئے تھے ۔جو یس بینک اور سب سے زیادہ سود دینے اور اپنی لیڈیز اسپیشل اورایم ایچ ای برانچوں کے سبب سرخیوں میں تھا وہ بنیادی طور پر خاندانی رسہ کشی اور قواعد کی خلاف ورزی اور دیوالیہ کمپنیوں کو قرض دینے کے سبب ڈوبا ہے ۔یس بینک سے ہر اکاونٹ پچاس ہزار روپئے تک کہ نکالی طے کر دی گئی ہے ۔کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہو یا تعلیم فیس دینی ہو یا پھر شادی ہو تو پانچ لاکھ روپئے تک نکال سکتے ہیں ۔ریزرو بینک پہلے بھی اسی طرح کی کارروائی کر چکا ہے ۔گلوبل ٹرس بینک ،اورینٹل بینک آف کامرس میں یونائیٹڈ اور ویسٹن بینک میں اور بینک آف انڈیا کو آئی سی آئی بینک میں ملایا جا چکا ہے ۔ریزرو بینک کے تحت آنے والے مالی اداروں میں پیسہ جمع کرنے والوں کو کچھ پریشانی بھلے ہو جائے لیکن ان کا پیسہ دیر سویر مل ہی گیا ہے ۔ریزرو بینک کی بات کریں تو کیا یس بینک اور آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر این ایس وشو ناتھن کے استعفی کا کوئی تعلق ہے ؟کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ سچ ہے کہ ریزرو بینک کے ڈپٹی گورنر کے استعفی اور یس بینک کے اندر چل رہی اتھل پتھل کے درمیان سیدھا تعلق ہے ۔کچھ دن پہلے صبح خبرا ٓئی کہ آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر وشو ناتھن نے اپنی معیاد پوری ہونے سے پہلے ہی صحت کے اسباب کے تحت استعفی دے دیا ۔دراصل آر بی آئی کے چار ڈپٹی گورنر ہوتے ہیں ۔جن میں سے دو آر بی آئی میں رینک کی بنیاد پر چنے جاتے ہیں ۔ایک ڈپٹی گورنر کمرشیل بینکنگ سیکٹر سے ہوتا ہے ۔جو ابھی تک وشو ناتھن تھے چوتھا ڈپٹی گورنر کوئی جانا مانا ماہر اقتصادیات ہوتا ہے ۔جو ویر اچاریہ تھے ۔انہوںنے بھی آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر سے استعفی دے دیا تھا ۔ان سے پہلے ارجت پٹیل بھی استعفی دے چکے تھے نومبر 2019میں ڈپٹی گورنر وشوناتھن نے بینکوں کو صلاح دی تھی کہ بینکوں کے لون جال سازی اور ان سے ہونے والے نقصان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری دینی چاہیے ۔وشوناتھن کا کہنا ہے کہ اگر بینک ان کا بروقت انکشاف نہ کرتے تو رسک لینے کی صلاحیت گھٹے گی اور ایسے واقعات ماضی گذشتہ میں ہوئے ہیں ۔جب ریزو بینک کے معنی میں بینکوں کے این پی اے کا پتہ چلا ہے ۔ایسے میں بینکوں کی اپنی اپنا اثاثہ رکھنے کے لئے ریگولیٹری کے قواعد سے الگ ہٹ کر سوچنا ہوگا۔اب ان باتوں کے سلسلے میں آپ یس بینک کو ہی دیکھئے ۔جس پر پچھلے سال ریزرو بینک ایک کروڑ روپئے کا جرمانہ لگا چکا ہے ۔جس نے اپنی سہہ ماہی کے لین دین کی تفصیل اب تک سامنے نہیں رکھی ۔جبکہ دو مہینے سے اوپر گزر چکے ہیں یعنی اب تک کوئی فائنل حساب کتاب نہیں دیا گیا ہے ۔اور جسے یس بینک کا 316فیصدی کیپٹل بیڈ لون میں پھنسا ہوا ہے ۔جس کی ریکوری کی کوئی امید نہیں ہے ۔ہو سکتا ہے جیسے پی ایم سی بینک کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کا تو پورا سرمایہ ہی ڈوب چکا ہے ۔ویسے ہی کچھ دن کے بعد یس بینک کے ساتھ بھی ایسا معاملہ سامنے آئے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اصلی قرض کا پتہ نہیں لگا ہے ۔اب یس بینک کو بچانے کے لئے ایس بی آئی کو آگے کیا جا رہا ہے ۔جو شخص ریزو بینک سے بنیادی طور سے بینکنگ ریگولیشن کے لئے ذمہ دار ہو وہ یہ کیسے دکھا سکتا ہے کہ ایسے پرائیوٹ بینک کو بچانے کے لئے دیش کے سب سے بڑے سرکاری بینک کو آگے لایا جا رہا ہے ۔یہ خبر سامنے آنے سے پہلے ہی ڈپٹی گورنر نے آر بی آئی کو استعفی دے دیا ہے ۔این ایس وشو ناتھن کی ہدایت پر آر بی آئی ،این پی ایف کے احتجاج میں وہ اپنے قدم پر ڈٹے رہے ۔اب یس بینک کا معاملہ اور سامنے آگیا ہے ۔بھارت کی بد حال ہو چکے بینکنگ سسٹم کی عدم صلاحیت بیان کرتی ہے اس سے یہ صاف ہوتا ہے کہ بد انتظامی کا تعلق صرف سرکاری بینکو ں سے ہی نہیں ہوتا بلکہ پرائیوٹ سیکٹر کے بینک بھی اس بد انتظامی کے شکار ہوتے ہیں اس لئے بینکوں کے کام کاج پر نگرانی کی ضرورت ہے ۔یہ بات بھی اس سے صاف ہوتی ہے کہ یس بینک کی بد حالی اچانک نہیں ہوئی ہے اس کے زوال کا رول کافی عرصے سے سامنے آرہا تھا ۔ریزرو بینک کو شاید امید تھی کہ کوئی راستہ نکل آئے گا ۔لیکن کوئی راستہ نہ نکلنے کی صورت میں ریزرو بینک نے اس کا کام کاج اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ اس کے رقم جمع کنندگان کو مستقبل میں پریشانی کم ہوگی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟