نزع سے معمولی بیداری کی طرف!
مدھیہ پردیش میں پچھلے دنوں شروع ہوئے سیاسی کھینچ تان کے درمیان بدھوار کو کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا جب سرکردہ لیڈر جوتر آدتیہ سندھیا کانگریس چھوڑ کر بھاجپا میں شامل ہو گئے ۔دراصل حال ہی میں ریاست میں 22ممبران اسمبلی کی بغاوت اور استعفی کے بعد کملناتھ سرکار گرنے کے اندیشے کے بھی سبھی کی نظریں سندھیا مہاراج پر لگی تھیں کہ موجودہ سیاسی بحران کے لئے اصل کڑی وہی ہیں ،ریاست میں اندرونی تنازعہ کو نہ سلجھا پانے کی اپنی عدم صلاحیت کا خمیازہ کانگریس کو نہ صرف جوتر آدتیہ سندھیا جیسے تیز ترار نوجوان لیڈر کانگریس کو چھوڑنے کی شکل میں بھگتنا پڑا ہے ۔بلکہ 22ممبران کے استعفی سے 15سال کے بعد بھاجپا کا راج ختم کر کے بنی کملناتھ کی کانگریس سرکار ایک بار پھر اقتدار سے باہر ہونے کے دہانے پر ہے ۔ریاست میں کانگریس کے اندر جھگڑے کی بنیاد سرکار کی تشکیل کے ساتھ ہی پڑ گئی تھی ۔ریاست میں کانگریس کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے کملناتھ ،دگ وجے سنگھ،اور جوتر آدتیہ سندھیا کا رول تھا ۔لیکن سرکار اور تنظیم دونوں میں ہی اپنے آپ کو نظر انداز کئے جانے سے خفا سندھیا نے بغاوت کا اشارہ دے دیا تھا ۔اس کے باوجود سندھیا کے بھاجپا میں شامل ہونے تک امید کی جار ہی تھی کہ شاید کانگریس کو اندرونی لیڈر شپ کے مسئلے کو دور کر سرکار بچا لینے کی کوشش ہو ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ نہ تو کانگریس کی طرف سے سندھیا کو روکنے کی سنجیدگی دکھائی گئی اور نہ سندھیا نے انتظار کرنا مناسب سمجھا ۔اب سندھیا بھاجپا میں شامل ہو گئے ہیں ۔اور جن ممبران اسمبلی نے بغاوت کا راستہ چنا ان کے سامنے نئے حالات میں اپنا موقوف طے کرنے کی مشکل ہے ۔کیونکہ دل بدل قانون کے تحت اگر ممبرشپ جانے کی نوبت آئی تو ان کو پھر سے چناﺅ لڑنا پڑ سکتا ہے ۔اب بھاجپا کی طرف سے ٹکٹ مل جائے سیاسی حساب کتاب میں ایک جیو کی طرح سیاسی پارٹی بھی جے وک مانے جاتے ہیں ۔انسانی بیداری کی ایک میڈیکل پوزیشن ہوتی ہے ،اور دوسرے وجیٹے ٹیرو اسٹیٹ ۔قوما میں شخص سویا لگتا ہے جسم او ردماغ اپنی کارروائی بند کر دیتا ہے لیکن صرف ریلکس ایکشن ہی اس کے زندہ ہونے کی صند ہے اور چوٹ لگنے پر بھی جسم حرکت نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی انگلیاں ہلتی ہیں ۔سانسیں با قاعدہ طور سے چلتی رہتی ہیں ۔ویجریٹو اسٹیٹ میں آنکھیں کھلی رہنے سے ہلکی سی نزیت کا احساس ہوتا ہے ۔لیکن دماغ کام نہ کرنے کے سبب باہری دنیا سے وہ لا علم رہتی ہے ۔میڈیکل سائنس کے مطابق اس صورت میں لکویڈ آکسیجن چیمبر میں ہوتے ہیں ۔لہذا لیکوڈ مریض کو جانے نہیں دیتا اور آکسیجن مرنے نہیں دیتی ۔ایسی ہی حالت اب کانگریس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔یعنی کانگریس کی پوزیشن ایک بیمار کے قوما جیسی ہے ۔مرکزی لیڈر شپ کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب آج کے ایک قدآور لیڈر نے پارٹی چھوڑ کر بھاجپا جوائن کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تین دن بیٹھا رہا لیکن دہلی لیڈر شپ نہیں ملی ۔ایک بار جب بات ہوئی بھی تو اس طرح جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا ۔غالب تمھیں کہو کہ ملے گا جواب کیا ؟مانا کہ تم کہا کئے اور وہ سنا کئے ۔اب موقع ہاتھ سے نکل گیا مدھیہ پردیش میں آج بحرانی پوزیشن ا س لئے پہنچی کہ لیڈر شپ نے موثر لگام نہیں کسی لیڈ ر شپ کو شاید اس بات کی بھی فکر نہیں کہ مدھیہ پردیش اس کے ہاتھ سے نکلا سمجھو ،راجستھان کا بھی یہی حال ہونے والا ہے ۔اگر کانگریس لیڈر شپ نزع سے باہر نہیں نکلی ۔پارٹی کی باگ ڈور فی الحال ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کی عمر 68سے 70برس سے زیادہ ہے چاہے وہ کملناتھ ہوں یا اشوک گہلوت یا موتی لال بہرا ہوں غلام نبی آزاد ہوں آنند شرما ہوں پی چدمبرم ،امبیکا سونی ،احمد پٹیل ،ایسے میں سندھیا ،سچن پائلٹ ،نتن پرساد،یا ملن دیوڑا جیسے نوجوان لیڈر کوئی ذمہ داری نہ ملتی دیکھ مایوس ہوتے جا رہے ہیں ۔اور نوجوان ورکر وں میں بھی مایوسی چھا رہی ہے ۔اس کی وجہ کانگریس کا ووٹ بینک ہے سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ 135سال پرانی پارٹی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے لڑنے کو مجبور ہے ۔پورے معاملے میں ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ کسی بھی پایدار جمہوریت میں مضبوط حکمراں پارٹی ہونی چاہیے ۔لیکن اتنا ہی ضروری ہے مضبوط اپوزیشن بھارت میں اپوزیشن بکھرتی جا رہی ہے ۔او ر اب حکمراں پارٹی بغیر لگام کے تانا شاہی ہوتی جائے گی ۔کانگریس کی اس کمزوری کا بھاجپا فائدہ اُٹھاتی ہے تو دیش کی سب سے پرانی پارٹی اس کے لئے کسی کو دوش نہیں دے سکتی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں