ملزمان کے شارع عام پوسٹر لگانے کا سوال

اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے 19دسمبر پچھلے سال لکھنﺅ میں شہریت ترمیم قانون کے احتجاج میں ہوئے تشدد کے دوران پبلک پراپرٹی کو نقصان پہچانے کے لئے 57لوگوںکو قصوروار مانا تھا ۔نقصان کے ہرجانے کے لئے ان کے نام اور تصویر والے پوسٹر لگوائے تھے الہٰ آباد ہائی کورٹ نے سرکار کے اس قدم کا خود نوٹس لیا اور اتوار کو بھی سماعت کی اور حکم دے دیا کہ سی اے اے تشدد کے ملزمان کے بینر پوسٹر 16مارچ سے پہلے ہٹا دئے جائیں ۔لیکن اس کے لئے اس نے جو طور طریقے اپنائے وہ سوالوں کے گھیرے میں ہیں ۔دراصل ریاستی حکومت نے ملزمان کے خلاف جس طرح کے پبلسٹی اقدامات کا سہارا لیا ہے ان پر شروع سے ہی اعتراض جتایا جا رہا تھا ہائی کورٹ نے صاف کہا کہ ملزمان کے پوسٹر لگانا ان کی پرائیوسی میں سرکار کا غیر ضروری دخل ہے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کی بنچ نے کہا کہ یوپی سرکار ہمیں یہ بتانے میں نا کام رہی ہے کہ چند ملزمان کے پوسٹر ہی کیوں لگائے گئے ۔جبکہ یوپی میں لاکھوں لوگ سنگین الزمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔بنچ نے کہا کہ چنند ہ لوگوں کی معلوماتی بینر میں دینا یہ دکھاتا ہے کہ انتظامیہ نے حکمرانی کا غلط استعمال کیا ہے ۔چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش کی ڈویزن بنچ کے سامنے ریاستی سرکار کی طرف سے پیش ہوئے ثالی شیٹر جنرل راگھویند ر پرتاپ سنگھ نے دلیل دی تھی کہ عدالت کو اس طرح کے معاملے میں مفاد عامہ کی طرح مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔با قاعدہ اس کو چانچ پڑتال کے بعد ہی ان لوگوں کے نام قانون کے مطابق سامنے آتے تو اچھا رہتا ۔انہیں عدالت سے بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔نوٹس کے باوجود یہ لوگ حاضر نہیں ہوئے تھے ایسے میں پبلک طور سے ان کے پوسٹر لگانے پڑے اس پر کورٹ نے جاننا چاہا کہ ایسا کون سا قانون ہے کہ جس کے تحت ایسے لوگوں کے پوسٹر پبلک طور پر لگائے جا سکتے ہیں ؟صاف ہے کہ سرکار نے جمہوریت اور قانون کے تقاضے کو در کنا ر کر شاید ہڑبڑی میں تحمل برتنا ضروری نہیں سمجھا غور طلب ہے کہ سی اے اے کے مسئلے پر ہوئے احتجاجی مظاہروں کے تشدد کی شکل لینے اور پراپرٹی کے نقصان کے لے ریاستی سرکار اور پولیس نے کئی لوگوں کو ملزم مانا تھا حالانکہ ابھی تک عدالت میں ان کے الزام ثابت نہیں ہوئے اور نہ ہی عدالت نے انہیں قصوروار مانا ہے ۔چونکہ ریاستی سرکار ملزمان سے وصولی کے راستے کو ہی ترجیحاتی حل مان رہی ہے اس لئے اس معاملے میں بھی 57لوگوں کی پہچان فوٹو سمیت پورا پتہ اور تعارف ہورڈنگ پر چھپوا کر ضلع کے چوک چوراہوں پر لگوا دئے ۔سرکار کی نظر میں نقصان کی وصولی کا یہ راستہ بے حد ضروری اور کارگر ہو سکتا ہے ۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ طریقہ جمہوری اور قانونی کسوٹی پر بھی پوری طرح مناسب ہے ؟یہ بھی سچ ہے کہ ریاستی سرکار نے ملزمان کی پوری تفصیل پبلک کرنے کا جو راستہ اپنایا ہے وہ نہ صرف ان کی پرائیوسی کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے ان کی سلامتی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟