47سال بعد برطانیہ سے بریگزیٹ سے الگ ہوا!

یوروپی پارلیمنٹ میں بریگزیٹ معاہدے پر مہر لگنے کے بعد 31جنوری کو برطانیہ یوروپی یونین سے باقاعدہ الگ ہو گیا ہے برطانیہ کے لوگوں کے ذریعے ریفرنڈم کے قریب ساڑھے تین سال بعد برطانیہ جمعہ کو یوروپی یونین سے علیحدہ ہوگیا 23جون 2016کو ریفرنڈم میں 52فیصد ووٹروں نے بریگزیٹ کی حمایت کی جبکہ 48فیصد عوام نے اس کی مخالفت کی تھی اس موقع پر وزیر اعظم بورس جانسن شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے لئے یہ امید کی گھڑی ہے جو انہیں لگا تھاکہ یہ کبھی نہیں آئے گی لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو پریشان ہیں اور نقصان ہونے جیسا محسوس کر رہے ہیں میں سبھی کے جذبات کو سمجھتا ہوں اور بطور حکومت ہماری ذمہ داری ہے کہ میں دیش کو ساتھ لیکر چلوں اور آگے بڑھاو ¿ں ۔کنزرویٹو پارٹی کے نیتا بورس جانسن نے پچھلے سال ملگزیٹ کی کوشش کو آخری مقام تک پہونچانے کے عہد تک دیش کے وزیر اعظم بنے تھے 2016میں ہوئے ریفرنڈم سے ہوئے اب تک برطانیہ میں دو وزیر اعظم بدل چکے ہیں ۔بریگزیٹ پر آئے عوام کے فیصلے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفی دیا تھا برطانیہ نے بریگزیٹ اس لئے چھوڑا کہ برطانیہ کے لوگ سوچتے ہیں کہ یوروپی یونین بجنس کے لئے بہت ساری شرطیں لگاتا ہے اور کئی بلین پاو ¿نڈ کی سالانہ ممبرشپ فیس لیتا ہے بدلے میں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا اس کی وجہ سے برطانیہ پیچھے جارہا ہے۔برطانیہ چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنی حدود پر کنٹرول پا لے اور ان کے دیش میں کام یا رہنے کے لئے آنے والے باہر ی لوگوں کی تعداد گھٹا دے برطانیہ 1973میں اتحاد کے پیغام کے ساتھ بریگزیٹ میں شامل ہواتھا 47سال بعد برطانیہ اس گروپ کو الوداع کہہ رہا ہے اس طرح اب یوروپی یونین 27ملکوں کاگروپ رہ جائے گا برطانیہ اپنے فیصلے لینے کے لئے مختار ہوگا اور وہ کسی بھی دیش کے ساتھ بغیر یوروپی یونین کی منظوری کے بغیر کاروباری معاہدے کرسکتا ہے لیکن ایسے وقت جب عالمی معیشت مندی کے دور سے گزر رہی ہے بریگزیٹ دو دھار والی تلوار جیسا ہے ایک طرف بریگزیٹ یوروپی یونین کی تجارت سے متعلق شرائط سے باہر نکل جائے گا تو دوسری طرف اس کا ممبرہونے کے ناطے جو رعایت ملتی تھی وہ نہیں ملے گی۔ اس کے بعد وہ یوروپی یونین کے دیگر ممبر ملکوں کے ساتھ بغیر فیس تجارت نہیں کر سکے گا اور فیس سے در آمد کا خرچ بڑھے گا اس لئے اس کی معیشت پر اثر پڑھنا طے ہے ۔بریگزیٹ کے اثر سے بھارت بھی اچھوتا نہیں رہے گا جس کی اسوقت تقریباً سو کمپنیاں برطانیہ میں ہیں اور جیسا کہ ماہرین اندازہ لگارہے ہیں کہ پاو ¿نڈ کی قیمت میں گراوٹ آسکتی ہے ایسے میں ان کمپنیوں کے منافع پر اثر پڑھ سکتا ہے ۔حقیقت میں بریگزیٹ کے تجزیہ میں تھوڑا وقت لگے گا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟