!بیشک احتجاج سی اے اے پر ہے اصلی ڈرتو این آر سی کا ہے
دیش میںجو حالات جموں کشمیر سے دفعہ 370ہٹانے اور تین طلاق ختم کرنے کے قانون سے لیکر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ایودھیامیں رام مندر کے فیصلہ سے نہیں پیدا ہوئے تھے وہ آج شہریت ترمیم قانون (سی اے اے )نے کچھ دنوں میں ہی کر دئے ہیں احتجاج کو بھلے چوکے کی تلاش میں اپوزیشن پارٹیاں ہو ا دے رہی ہوں لیکن اقلیتیں اسے اپنے وجود کی لڑائی مان کر لڑنے کیلئے بے چین ہیں ۔اقلیتوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس ناراضگی کو ہوا دے رہا ہے ۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو مودی کو برداشت نہیں کرتا آج سے نہیں بلکہ 2002سے جاری رکھے ہوئے ہے وہ ہر ایسے موقع کی تلاش میں رہتاہے کہ کب مودی حکومت کی مخالفت ہو نوجوان طبقہ اسلئے سڑکوں پر اترا کیونکہ اسے اپنا مستقبل تاریک دکھائی پڑتا ہے ۔اسے موجودہ معیشت سے معاشی حالات سے مایوسی ہے اور ان کا سارا غصہ سرکار پر اتارنے کا موقع بنا رہتاہے وہیں اکثریتی طبقہ میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو ووٹ بینک کی سیاست کرتا ہے اور اکثریتی اور اقلیتیوں میں زہر گھولنے کے فراق میں رہتا ہے خاص طور پہ جب چناو ¿ قریب ہو آسام میں لڑائی کا اشو الگ ہے نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں آسام کو چھوڑ کر اشو الگ ہیں اقلیتوں کو پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے مسلمانوں کو شہریت نادینے سے زیادہ پریشانی اس کے بعد دیش بھر لاگو ہونے والی این آر سی سے ہے مسلمان مان رہے ہیں کہ انہیں بھارت سرکار شہریت ثابت کرنے کے نام پر پریشان کرنے والی ہے اس کے احتجاج سے بھاجپا کا ایک طبقہ بھلے ہی خوش ہو رہا ہو لیکن بھاجپا کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے حکمت عملی ساتھ ہی احتجاج سے پریشان ہے انہیں اتنا بھاری احتجاج ہونے کا اندازہ نہیں تھا ۔احتجاج اکثریتی ،اقلیتی علاقوں میں ہو رہے ہیں اس تحریک کی رہنمائی کو سیاسی رنگ دئے جانے سے پریشان ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ تحریک ان علاقوں میں بھی پہونچ جائے جہاں اقلیتی آبادی نہیں ہے دہلی کے ایک نیتا نے کہا ایسا نہیں ہوا تو بھاجپا کی سیاست کامیاب ہو جائے گی 5بار سیلم پور سے ممبراسمبلی رہے چودھری متین احمد نے بتایا کہ یہ ان پڑ مسلمانوں میں ہی پڑھے لکھے لوگوں میں بھی زیادہ پھیل رہی ہے کہ مرکزی سرکارکی پوری تیاری این آر سی کے نام پر اقلیتوں کی شہریت ختم کرنے کے یا کسی بہانے سے پریشان کرنا ہے ۔دیش کے وزیر داخلہ امت شاہ اور امت شاہ پارلیمنٹ میں اور بھاجپا کے نگراں صدر جی پی نڈا جمعرات کو ایک پروگرام میں بول چکے ہیں کہ این آر سی دیش بھر میں لاگو کیا جائے گا اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے آسام کے تجربہ سے لوگ پریشان ہیں پچاس سال سے دیش کے شہری ہونے کا ثبوت مانگا گیا ہے اس کیلئے لاکھوں شہریوں کی شہریت روکی گئی اس میں بڑی تعداد میں اقلیتیں ہیں شہری لوگوں کے پاس ابھی تو تازہ ثبوت مل جائیں گے لیکن برسوں پرانے ثبوت کس کے پا س محفوظ ہوںگے ؟اسی طرح مصطفی باد کے ممبر اسمبلی رہے آل انڈیا ہائی کمیٹی کے نائب صدر حسن احمد پوچھتے ہیں کہ وہ دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ہنگامہ ہونے کے وقت سے ہی امن مارچ نکالنے اور جگہ جگہ بھائی چارہ میٹنگیں کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ جان بوجھ کر بھائی چارہ بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں ۔اس مسئلے کو لیکر لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے سوال پید اہیں ۔مرکزی سرکار کی اس مسئلے پر جواب دہی بنتی ہے وہ لوگوں کے اس شبہ کودور کریں یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اپنا گاو ¿ں برسوں پہلے چھوڑ چکے ہیں اپنے اس دیش کے بنیادی شہری ہونے کا ثبوت دیں بیشک احتجاج سی اے اے کو لیکر ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ اصل احتجاج این آر سی کیلئے ہے ۔اسلئے نہیں لگتا کہ شہریت ترمیم قانون کا احتجاج جلد ختم ہونے والا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں