چیف جسٹس گگوئی نے وہ فیصلہ کیا جو عدلیہ میں پہلے کبھی نہیں ہوا

بڑی عدلیہ میں کرپشن کے خلاف سخت قدم اُٹھاتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے پرائیوٹ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کورس میں داخلہ دینے کی اجازت میں مبینہ کرپشن کے معاملے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیئر جج ایس این شکلا کے خلاف سی بی آئی کو باقاعدہ مقدمہ درج کرنے کی اجازت دے دی ہے یہ پہلا مقوقعہ ہے جب ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج کے خلاف اس طرح سے سی بی آئی کو کیس درج کرنے اور جانچ شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔الہٰ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس نارائن شکلا بھارت کے ایسے پہلے جج ہوں گے جن پر مقدمہ چلایا جائے گا جسٹس شکلا پر مقدمہ درج کرنے کے لئے سی بی آئی نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ بھارت کے سابق جج جسٹس دیپک مشرا کی صلاح پر اس نے جسٹس شکلا کے خلاف ابتدائی جانچ شروع کی تھی اس وقت جسٹس شکلا کے ذریعہ مبینہ دھاندلیوں کا معاملہ اس وقت کے سی جے آئی یعنی جسٹس دیپک مشرا کے نوٹس میں لایا گیا تھا ۔اب یہ خط ملنے کے بعد موجودہ سی جی آئی جسٹس رنجن گگوئی نے سی بی آئی کو جسٹس شکلا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی سی بی آئی نے جسٹس گگوئی کے سامنے اس شروعاتی جانچ کے بارے میں ایک مختصر نوٹ بھی پیش کیا جس میں سلسلہ وار طریقہ سے سارے واقعات کی جانکاری دی گئی تھی سی بی آئی کے ذریعہ پیش کاغذات اور خط کے پیش نظر جسٹس رنجن گگوئی نے کہا میں نے آپکا خط اور ساتھ نتھی نوٹ کو بھی پڑھا ہے۔اس خط میں جو حقائق اور حالات اور معلومات میرے سامنے رکھی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میں آپ کو باقاعدہ جانچ شروع کرنے کی اجازت دینے کے لئے مجبور ہوں ۔جسٹس نارائن شکلا پر الزام ہے کہ انہوںنے مبینہ طور پر ایک پرائیوٹ میڈیکل کالج کو فائدہ پہنچایا سال 2017-18کے بیچ کے طلباءکے داخلہ کی معیاد غلط طریقہ سے بڑھائی جو سپریم کورٹ کے حکم اور موجودہ ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بھارت میں جولائی 1991تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس کے بعد 25جولائی 1991کو سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے جج ویرا سوامی کے خلاف ایک معاملے کی سماعت کے دوران ایک تاریخی فیصلہ نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں پر بھی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جسٹس شکلا کا معاملہ اپنے آپ میں نہ صرف ایک غیر متوقعہ فیصلہ ہے بلکہ ہمت والا فیصلہ ہے کیونکہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں کبھی کسی جج پر مقدمہ نہیں چلایا گیا ۔اگر جسٹس شکلا قصوروار پائے گئے تو ان پر پوری کارروائی کے تحت تحریک ملامت بھی چلائی جا سکتی ہے ۔یہ ہندوستانی عدلیہ کے لئے آنکھیں کھولنے والا معاملہ ہوگا ۔ہم جسٹس رنجن گگوئی کو اس تاریخی فیصلے پر مبارکباد دیتے ہیں انہوںنے وہ کام کیا جو بھارت کی عدلیہ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟