آر ٹی آئی ترمیمی بل جمہورےت پر حملہ ہے !

راجیہ سبھامیں بھاری احتجاج کے بعد بھی آرٹی آئی ترمیم بل کو حل پاس کرنے پر اپوزیشن کی الگ الگ پارٹیوں سے وابستہ 17ممبران پارلیمنٹ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے چیئر مین کو خط لکھا ہے ۔بلوںکو بغیر کسی جائزہ لینے کے بغیر پاس کراناپارلیمانی روایت کے خلاف ہے ۔این ڈی اے سرکار کی طرف سے بغیر عام لوگوں کی مشورے سے پیش یہ ترمیمی بل انفارمیشن کمیشنوں کی مختاری کو سنگین طور سے متاثر کرتا ہے جو اطلاعات حق (آرٹی آئی )قانون کے تحت قطعی فیصلہ کن ہے ۔سال 2005میں پاس آرٹی آئی ایکٹ یقینی طور پر دیش کی عوام کیلئے مضبوط قوانین میں سے ایک رہا ہے اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کے تحت ہر برس 60لاکھ درخواستیں دی جاتی ہیں اس لئے بھارت کا آرٹی آئی قانون مشینری کی شفافیت یقےنی کرنے کے معاملہ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قانون ہے ۔لو گ تمام مسئلوں پر سرکار کی جواب دہی یقینی کرانے کیلئے اس قانون کا استعمال کرتے ہیں پھر چاہئے معاملہ راشن سے جڑا یا پینشن سے ۔بڑے گھوٹالے ،سرکار ملازمین کی پراپرٹی سے لیکر انسانی حقوق کے خلاف جڑی اطلاعات بھی مانگی جاتی ہےں اس ستعمال دیش کے طاقتور لوگوں سے جواب مانگنے کیلئے بھی کیا جارہا ہے یعنی جمہوری سسٹم میں اقتدار کے بٹوارے کو یقینی بنانے کی اس سمت میں یہ کام بخوبی کام کرتا ہے اسی وجہ سے طاقتور لوگ ،سرکار افسر ونیتا اسے کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں اس لئے انہیں اس میں کامیابی مل گئی ہے ۔آر ٹی آئی ایکٹ 2005میں آرٹی آئی ترمیمی بل 2019مرکزی حکومت کو مرکزی اور ریاستی اطلاعاتی کمیشنوں کے انفارمیشن کمشنروں کی ملازمت میعاد ،تنخواہ بھتے اور دیگر شرائط کو طے کرنے کیلئے قاعدہ بنانے کیلئے حق دینے کی تجویز ہے ۔سینٹر ل انفارمیشن کمیشن کے ساتھ سابق اطلاعاتی کمیشنروں نے ترامیم کو اطلاعاتی کمیشن کی مختاری اور لوگوں کے جاننے کی بنیادی حق پر سیدھا حملہ قرار دیاہے ۔انہوںنے حکومت سے غیر ضروری ترامیم کو واپس لینے کی بھی درخواست کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ سرکار اس بارے میں ایماندار نہیں ہے ۔وہ یہ ترامیم کیوں لا رہی ہے؟ایک ایم پی دیپک سندھو نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ ایک سماجی تحریک کے ذریعہ سے آیا تھا اور آر ٹی آئی ترمیم بل پر جنتا سے کسی بھی طرح کا تبادلہ خیال کرنے میں سرکار کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے ۔اب کوئی بڑا گھوٹالہ سامنے نہیں آئے گا ۔آر ٹی آئی قانون کو کمزور کر کے مودی سرکار نے بد عنوان افراد کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں ۔اس قانون کو اور جنتا کا ہاتھ مضبوط کرنے والے اس قانون میں ترمیم کر کے بدعنوان لوگوں کے ہاتھ مضبوط ہو ں گے آر ٹی آئی قانو اس اصول پر بنا تھا کہ جنتا کو یہ جاننے کا حق ہے کہ دیش کیسے چلتا ہے ؟اس کے لئے اطلاعاتی کمیشن کو مختاری دی گئی کہ وہ سرکاری کنٹرول سے آزاد ہوگا ۔انفارمیشن کمشنروں کی تقرری تنخواہ بھتے اور معیاد یہ سب سپریم کے کورٹ کے جج اور چناﺅ کمشنروں کے برابر ہوگا یعنی سرکاری مداخلت سے آزاد اب چونکہ یہ سرکار ایماندار ہے اس لئے اس میں قانون کو ہی بدل دیا اب اطلاعاتی کمیشن مختار نہیں ہوگا اطلاعاتی کمشنروں کی تقرری اور معیاد تنخواہ بھتے وغیرہ اب مرکزی حکومت مقرر کرئے گی یعنی یہ سب جسے چاہے جتنے وقت کے لئے رکھے گی ۔جب چاہے گی تو ہٹا دے گی یعنی اب انفارمیشن کمیشن ایک اور پنجرے کا طوطہ بن کر کام کرئے گا ۔آر ٹی آئی قانو اب دنیا کا سب سے بہتر سوئل حق قانو نہیں رہے گا اب اس جمہوریت میں سارے اختیارات صرف چند گنے چنے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں گے جمہوریت کا فیڈرل ڈھانچہ اپنی قسمت پر روئے گا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!