ہما داس پورے دیش کو آپ پر فخر ہے

ہمارے دیش میں کرکٹ کا اتنا بول بالا ہے کہ کھیل شائقین کا دھیان کھیلوں پر کم ہی جاتا ہے اور ٹیلنٹ کا راستہ کانٹوں بھرا ہو سکتا ہے ۔کچھ عرصہ تک کے لئے رکاوٹ نظر آسکتی ہے ۔لیکن اسے اپنے مقام تک پہنچانے سے مستقل طور پر کوئی روک نہیں سکتا میں بات کر رہا ہوں بھارت کی اُڑن پری ہماد اس کی دیش کی نئی اُڑن پری نے حال ہی میں چیک جمہوریہ کے نود پریسٹو ناڈ میں 2جی گرا پری میں عورتوں کی چار سو میٹر دوڑ میں سیزن بیسٹ 52.09سیکنڈ کے ساتھ گولڈ میڈیل حاصل کیا ایک مہینے کے اندر ان کا یہ پانچواں گولڈ میڈیل ہے 2جولائی کو یوروپ میں اور سات اور تیرہ جولائی کو چیک جمہوریہ میں اور سترہ جولائی کو ٹابور گراپی میں الگ الگ مقابلوں میں گولڈ میڈیل حاصل کیا ہماد اس پہلی ایسی ہندوستانی کھلاڑی بن گئی ہیں جنہوںنے عالمی دوڑ چمپین شپ ٹریک میں گولڈ میڈیل حاصل کیا ہے ۔18سالہ ہما اسم کے ڈبرو شہرکے پاس ایک چھوٹے سے گاﺅں کی رہنی والی ہیں انہوںنے محض دو سال میں اپنا نام بین الا اقوامی سطح پر درج کرایا ہے ۔ہما بے حد غریب کنبے سے تعلق رکھتی ہیں ان کے والد کا نام رنجیت داس ہے اور وہ کسان ہیں ۔شروع میں پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہما کو شروع سے فٹ بال میں دلچسپی تھی اور وہ اسکول میں لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیلا کرتی تھیں ۔ہمیشہ سے ہی اسے وہ اپنا کیرئیر بنانا چاہتی تھیں وہ گاﺅں میں آنے والی گاڑیوں کے ساتھ دوڑ لگاتی تھی وہ لڑکوں کو ریس میں ہرا دیا کرتی تھیں یہ دیکھ کر ان کی پی ٹی ٹیچر نے انہیں ریسلر بننے کی صلاح دی مقامی کوچ نپن داس کی صلاح مان کر ہما نے ضلع سطح کی 100اور دو سو میٹر کے مقابلے میں حصہ لیا ہما کی لگن کو دیکھتے ہوئے نپن داس نے انہیں گوہاٹی لے کر آئے یہیں سے ہی ہما داس کا کیرئیر ایتھلیٹ کے طور پر شروع ہوا ہما داس کرکٹ کے مقابلے اپنی تاریخی کارناموں کو بہت توجہ نہ ملنے سے دکھی ہیں ۔کہتی ہیں 11سیکنڈ دوڑنے کے لئے برسوں ایڈیاں گھس جاتی ہیں کوئی ایتھلیٹ روز صبح چار بجے اُٹھ کر آٹھ آٹھ گھنٹے پریکٹس کرتا ہے ایسے میں اگر دیش اس کے کارناموں کو نظر انداز کر دے تو اسے کیسا لگے گا ۔آپ خو د ہی اندازہ لگا سکتے ہیں براہ مہربانی ہمیں بھی کرکٹروں جیسا پیار دیں ہمارے دیش میں بد قستمی سے لمبے عرصے سے دور دراز علاقوں میں غریب پریواروں کے بچے الگ الگ کھیلوں میں اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ مقامی سطح پر کھیلیں تو وہ اچھے کھلاڑی بن سکتے ہیں لیکن کھیل کے لئے موقوں اور سہولیات کی کمی میں انہیں آگے نہیں بڑھتے کا موقعہ ملتا ۔ہما داس انہیں میں سے ایک ہیں جنہوںنے بہت کم وقت میں یہ ثابت کر دکھایا کہ اکثر وقت پر ٹیلنٹ کی پہچان ہو اور انہیں موقعہ دیا جائے کوئی سہولت مل جائے تو وہ دنیا میں دیش کا نام روشن کر سکتی ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟